بھوک جب اپنے دانتوں کو کٹکٹانے لگے تو بلوریں آنکھیں، چہروں کی سرخی اور لبوں کی نازکی کو بھی چاٹ کھاتی ہے۔ انسان کی ساری بذلہ سنجی، ظرافت بلکہ فراست کو بھی افلاس کے عفریت بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔ پھر زندگی کی ساری آسودگیاں اور رعنائیاں مدھم پڑنے لگتی ہیں، کتنے ہی آرزوؤں کے شہر کو بھوک اور افلاس نے تہ و بالا کر ڈالا، منہگائی کے عارضوں اور صعوبتوں نے مزید انسانی بدن کی اینٹیں چٹخا کر رکھ دی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی گذشتہ سال کی رپورٹ بڑی ہی روح فرسا ہے کہ دنیا بھر میں ہر روز دس ہزار بچے بھوک کی وجہ سے جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ آج دنیا بھر میں تقریباً 854 ملین افراد غذائیت کی کمی کے شکار ہیں جب کہ اشیائے خور و نوش کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے یہ تعداد جلد ہی 100 ملین تک پہنچ جائے گی۔ اقوامِ متحدہ کے 2023 ء کے اعداد و شمار بھی میرے سامنے ہیں جو بڑے ہی بھیانک ہیں۔ اس لیے کہ عالمی وبا کورونا اور روس یوکرین جنگ کی وجہ سے 2019 ء سے اب تک دنیا بھر میں بھوکے رہنے والوں کی تعداد 12 کروڑ اضافے کے ساتھ 73 کروڑ ہوگئی ہے۔اگر یہ سلسلہ تھم نہ سکا تو 2030 ء تک تقریباً 60 کروڑ لوگ دائمی طور پر غذائی قلت کے شکار ہو جائیں گے، جن میں کثیر تعداد بچوں کی ہے، آج کی مہذب دنیا میں بھی بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، اخلاق ساغری کے اشعار ہیں:-
بھوک میں کوئی کیا بتلائے کیسا لگتا ہے
سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی تحفہ لگتا ہے
یہ تو کھلونے والے کی مجبوری ہے، ورنہ
کس بچے کا رونا اس کو اچھا لگتا ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا بھر کے تمام ممالک آٹھ ارب لوگوں کے لیے خوراک پیدا کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود 80 کروڑ لوگ ابھی تک بھوک کے شکار ہیں اور دو ارب انسانوں کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس سے انسانی حیات نہ صرف متاثر ہو رہی ہے بلکہ صحت کے سنگین عارضے بھی جنم لے رہے ہیں۔لاکھوں بچوں کی مسکان کو بھوک نوچ رہی ہے۔
ایک طرف صورتِ حال یہ ہے کہ انسان بھوک سے مَر رہے ہیں جب کہ دوسری طرف یہ اعداد و شمار بھی انسانیت کے لیے بڑے ہی دل سوز ہیں کہ دنیا بھر میں خوراک کا کثیر حصّہ ضائع بھی ہو رہا ہے۔وائس آف امریکا کی لیزا شیلائن کی رپورٹ کے یہ اعداد و شمار انسانوں کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہیں کہ دنیا بھر میں پیدا کی جانے والی خوراک کا لگ بھگ ایک تہائی یا ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک کسی بھوکے کے پیٹ میں جانے کی بجائے آخر کار بازاروں میں پڑی گَل سَڑ جاتی ہے اور پھر کوڑے دانوں میں چلی جاتی ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق اس نقصان کا اندازہ سالانہ ایک ٹریلین ڈالر ہے۔خوراک ضائع کرنے والوں کی بے حسی، کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے، محمد اظہر شمس کا کہنا ہے کہ؛-
ترقی کا وہ دعویٰ کر رہا ہے
مگر ہر شخص فاقہ کر رہا ہے
پاکستان میں وزارتِ قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی دستاویزات میں موجود انکشافات بھی بڑے ہی دل دوز ہیں کہ پاکستان شدید غذائی قلت کے باوجود یہاں ہر سال 4 ارب ڈالرز کی خوراک ضائع کر دی جاتی ہے۔اسی دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ ملکی پیداوار کی تقریباً 26 فی صد خوراک ضائع ہوتی ہے، تحقیقات کے مطابق پاکستان میں خوراک کا سالانہ ضیاع 19.6 ملین ڈالر ہے۔
لوگ بھوک کے آزار میں مبتلا ہیں، ہزاروں بچے اپنی بھوک مٹانے کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، آپ کسی بس سٹاپ یا ریلوے سٹیشن پر چلے جائیں وہاں سیکڑوں معصوم بچے محنت مزدوری کرتے دِکھائی دیں گے، کتنے ہی بچے ایسے بھی ہوں گے، جو بسوں میں صفائی اور جھاڑو دیتے نظر آتے ہیں۔منور رانا کا بہت عمدہ شعر ہے:-
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
چوکوں چوراہوں پر ہزاروں ایسے بچے کہ جن کی عمریں کھلونوں سے کھیلنے کی ہوتی ہے وہ کھلونے بیچتے نظر آئیں گے، آج بھوک اور افلاس نے ننھے ہاتھوں کو بھی محنت مشقت پر لگا دیا ہے، تنگ دستی کے آلام نے ہزاروں بچوں کی معصومیت چھین لی ہے۔سید سروش آصف کا شعر ہے:-
اس کے ہاتھ میں غبارے تھے پھر بھی بچہ گم صم تھا
وہ غبارے بیچ رہا ہو، ایسا بھی ہو سکتا ہے
آپ کسی بھی شادی کی تقریب میں کھانے کے بعد کھانے کی میزوں کے مناظر دیکھ لیں! کھائی ہوئی ہڈیوں پر بھی بوٹیاں لگی ہوں گی، گردن کی بوٹیوں کو تو کوئی ہاتھ تک نہیں لگاتا، تقریبآ ہر شخص اپنی ضرورت سے زیادہ کھانا اپنی پلیٹ میں ڈال لیتا ہے، جسے وہ بڑی بے دردی کے ساتھ ضائع کر دیتا ہے، اگر مسنون طریقے سے کھانا کھایا جائے تو اس کھانے سے سیکڑوں بھوکوں کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے، کتنے ہی گھروں میں بچا کھچا کھانا فریج کے اندر ہی پڑا گَل سَڑ جاتا ہے، اسے کسی ضرورت مند کو دینے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، خوراک ضائع کرنے کی متحمل کبھی نہیں ہو سکتی۔بھوک کے ستائے بچوں کے عارض و لب و رخسار کو دیکھ کر انسان سہم سا جاتا ہے، وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے کیسے کیسے جتن کرتے ہیں، اس کا تصور ہی محال ہے۔راشد راہی کا شعر ہے:-
اپنے بچوں کو میں باتوں میں لگا لیتا ہوں
جب بھی آواز لگاتا ہے کھلونے والا

 انگارے۔۔۔حیات عبداللہ