سوال (4292)
ایک سرکاری پلاٹ 1994ء میں محمد مکی کے نام رجسٹری تھا لیکن اس پر قابض کوئی اور تھا، جس سے محمد مکی کا کیس چل رہا تھا، 2004ء میں حکومت نے رجسٹری کالعدم قرار دے دی، لیکن کیس چلتا رہا، 2010ء میں محمد مکی نے پلاٹ مذکور محمد یار کو چھ لاکھ روپے میں فروخت کر دیا کہ وہ کیس جیتنے کی صورت میں پلاٹ محمد یار کے نام کر دے گا اور بوقت بیع طے پایا کہ آئندہ عدالتی اخراجات محمد یار برداشت کرے گا۔
محمد مکی نے اپنا ایک اور پلاٹ اپنے دوست محمد اصغر کے سپرد کیا کہ اگر متنازع پلاٹ کا کیس جیتنے کی صورت میں اس کے ورثہ محمد یار کو فروخت شدہ پلاٹ نہ دیں تو اس کے عوض محمد اصغر اسے دوسرا پلاٹ دے دے گا اور اگر کیس ہار گئے تو محمد یار کسی چیز کا حقدار نہیں ہوگا (نہ عدالتی اخراجات کا اور نہ اپنی ادا کردہ رقم مبلغ چھ لاکھ روپے کا)
محمد یار نے اس شرط کو تسلیم کیا۔
اب جب کہ محمد مکی فوت ہو چکا ہے اور کیس ہارنے کی وجہ سے اسے پلاٹ مذکور نہیں ملا تو اس کے ورثاء محمد یار کو عدالتی اخراجات اور اس کی ادا کردہ رقم چھ لاکھ روپے واپس کرنے کے شرعاً پابند ہیں یا نہیں؟
جواب
اس سوال میں ایک سے زائد پہلو ہیں جن کی رو سے اس کا جائزہ لینا ہو گا.
اول: بیع کی نوعیت – بیع معلقہ (Conditional Sale)
قرآن کریم میں فرمایا گیا:
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ”[المائدہ: 1]
اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔
بیع بھی ایک عقد ہے، لیکن شریعت نے اس عقد کی صحت کے لیے کچھ شروط و ضوابط مقرر کیے ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ معاملہ یقینی ہو، غرر سے پاک ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
“نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ”[صحیح مسلم، حدیث: 1513]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غرر والی بیع سے منع فرمایا۔
چونکہ محمد مکی نے یہ پلاٹ محمد یار کو اس شرط پر بیچا کہ اگر کیس جیت گیا، تو پلاٹ دے دوں گا، اور اگر ہار گیا تو کچھ بھی نہیں ملے گا، تو یہ بیع “معلقہ علی شرط” ہے ایسی بیع میں اصل معاوضہ (پلاٹ) غیر یقینی تھا، اور شریعت میں بیع غرر ناجائز ہے۔ لہٰذا یہ بیع شرعاً صحیح نہ تھی اور اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔
دوم: رقم کی حیثیت (محمد یار کے ادا کردہ چھ لاکھ روپے)
قرآن کریم میں فرمایا گیا:
“وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ، وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ”[البقرۃ: 280]
اور اگر (قرض دار) تنگ دست ہو تو اسے مہلت دو، اور اگر معاف کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔
یہ آیت اصولی طور پر مالی معاملات میں رعایت، قرض کی واپسی اور عدل کا درس دیتی ہے۔
ایک فقہی اصول کے مطابق اگر بیع مکمل نہ ہوئی ہو، تو خریدار کی دی گئی رقم بیعانہ نہیں بلکہ امانت ہوتی ہے۔ چونکہ محمد یار نے پلاٹ حاصل نہیں کیا اور بیع مشروط تھی، تو محمد مکی (یا اس کے ورثاء) کے لیے یہ رقم رکھنا جائز نہیں۔ اس رقم کو واپس کرنا شرعی واجب ہے۔
سوم: عدالتی اخراجات کی ذمہ داری: یہ نکتہ چونکہ فریقین کے درمیان پہلے سے طے شدہ تھا کہ: “اگر کیس ہار گئے تو محمد یار کسی چیز کا حقدار نہیں ہوگا (نہ عدالتی اخراجات کا اور نہ چھ لاکھ روپے کا)” تو یہ ایک طرح کی شرطِ ترکِ ضمان ہے، یعنی وہ خطرہ قبول کیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصول ہے:
“المسلمون على شروطهم، إلا شرطًا أحل حرامًا أو حرم حلالًا” [سنن ترمذی، حدیث: 1352]
مسلمان اپنی شرطوں پر قائم رہتے ہیں، سوائے ایسی شرط کے جو حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرے۔
چونکہ یہ شرط نہ حرام تھی، نہ کسی حلال کو ممنوع کر رہی تھی، تو اس کی پاسداری لازم ہے۔ لہٰذا:
محمد یار کو عدالتی اخراجات کی واپسی کا شرعاً حق نہیں۔
خلاصۂ یہ بیع شرعی طور پر باطل یا فاسد تھی کیونکہ یہ شرط (اگر کیس جیتا تو…) کے ساتھ معلق تھی۔ محمد یار نے جو چھ لاکھ روپے ادا کیے تھے، وہ امانت تھے۔ چونکہ وہ معاوضہ نہیں لے سکا، تو یہ رقم محمد مکی کے ورثاء پر واجب ہے کہ واپس کریں۔ عدالتی اخراجات کی واپسی کا محمد یار کو کوئی شرعی حق نہیں کیونکہ وہ پہلے سے طے شدہ شرط پر راضی ہو چکا تھا۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ