سوال (2173)
بدعت کی درست تعریف کیا ہے؟
جواب
ہر وہ عمل بدعت ہے، جس کا حکم اور اصل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی اسے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین نے عبادت و سنت اور نیکی سمجھ کر کیا ہو۔
ہر بدعت کو قرآن کریم کی اس آیت پر پیش کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ کس قدر سنگین جرم اور بے ادبی اور نافرمانی ہے۔
“أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ”[سورۃ الحجرات: 1]
«اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! الله اور ان کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور الله سے ڈرو، یقیناً الله سب کچھ سننے والے، سب کچھ جاننے والے ہیں»
ہر وہ عمل جس کو الله تعالى نے، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دین، عبادت، نیکی اور حلال وحرام قرار نہیں دیا اور ہم اسے دین، عبادت، نیکی کے ارادے سے کریں اور حلال و حرام میں خود سے حلال وحرام کرتے پھریں تو وہی در اصل الله تعالى اور رسول اكرم صلی الله علیہ وسلم سے آگے بڑھنے والے ہیں۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
“قال ابن كثير كل قول وفعل لم يثبت عن الصحابة فهو بدعة”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر وہ قول اور فعل جو صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی کام کے کرنے کا موقع آیا ہو اور وہ کام کرنے میں کوئی مانع بھی نہ ہو، تو وہ کام آج کوئی دین سمجھ کر کرے تو بدعت ہوگا، باقی بدعت کی تفصیلات و اقسام الگ ہیں۔
مثلاً: اذان سے پہلے درود پڑھنا، اذان کا موقع بھی آیا ہے، رکاوٹ بھی کوئی نہیں تھی، اگر آج کوئی پڑھے تو بدعت ہے۔
فضیلۃ الباحث حنظلہ ربانی حفظہ اللہ