سوال       (100)

کیا بلی کی خرید وفروخت جائز ہے اگر نہیں تو جس کے پاس بلی ہے وہ اس کا مالک ہو گا ؟

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی اور بلے کی قیمت سے منع فرمایا ہے ۔

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

“‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، ‏‏‏‏‏‏وَالسِّنَّوْرِ”.[سنن أبي داود: 3479]

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے کتے اور بلی کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے‘‘۔

اس دلیل کی رو سے بلی کا کاروبار خرید و فروخت جائز نہیں ہے ، البتہ خود بلی کہیں سے چلی آتی ہے یا راستے میں آپ کو مل جاتی ہے ، آپ اسے گھر لے آتے ہیں پال لیتے ہیں یہ جائز امر ہے ۔ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بھی بلی کو لیے پھرتے تھے ، شاید سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی کنیت بھی اس لیے مشھور ہوگئی تھی ، سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کا نام  عبدالرحمٰن بن صخر تھا ۔ باقی مغرب کی نقالی ویسے ہی غلط ہے اور بلی کی تجارت تو نص سے حرام اور ناجائز ہے ۔

باقی بلی گھر میں پالی جاسکتی ہے ، تاہم اس کی خرید و فروخت منع ہے۔ تحفے کے طور پر مل جائے تو رکھ لیں۔ اور جب اکتا جائیں تو کسی کو ویسے ہی دے دیں ۔

اسی طرح جس کسی کی بلی ہے ، وہی اس کا مالک ہے الا یہ کہ وہ بطور تحفہ کسی اور کو دے دے، تو ملکیت اس کی طرف منتقل ہو جائے گی ۔

اب اس میں یہ سوال بن سکتا ہے کہ کیا کوئی حرام چیز ملکیت میں آ سکتی ہے ، اس میں یہ ہے کہ وہ چیز ملکیت میں آ سکتی ہے ، جیسے گدھے کتے وغیرہ حرام ہیں اور لوگوں کی ملکیت میں ہوتے ہیں ۔

باقی شراب کی ملکیت کی بات ہے ، یہ قیاس مع الفارق ہے ۔ ضرورت کے لیے گدھا اور کتا رکھنے کا جواز ہے۔ مگر شراب رکھنے کی قطعا ضرورت نہیں ہے ۔ شراب خریدے یا کہیں سے مل جائے۔ اپنے پاس رکھنے کی یا اسے فروخت کرنے کی یا کسی کو بطور تحفہ دینے کی قطعا گنجائش نہیں ہے ۔

باقی اس میں یہ بھی ہے کہ جن اشیاء کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے ، لیکن انتفاع جائز ہے ، فقہاء ان کے لیے مِلك کی بجائے لفظ اختصاص استعمال کرتے ہیں ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی صاحب       فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر صاحب

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ               فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ