میری شادی دوران طلبِ علم ہو گئی تھی ۔اس لیے اس کے بعد بھی دوسال میں صوبہ خیبر میں طالب رہا۔ ہمارا تعلق چونکہ پشتون قوم سے ہے ۔ ان کے ہاں پورے خاندان کاایک جگہ کھاناضروری ہوتا ہے ۔ تاکہ متحد رہیں ۔ لیکن ہم بچپن ہی سے ماں کے ساتھ کھاناکھانے اورچائے پینے کے عادی ہوگئے تھے ۔کیونکہ والد صاحب گھر سے باہر ہوتے تھے ۔جب میری شادی ہوئی تو میں نے اسی اصول کو نبھانے کے لیے اپنے آپ پر زبردستی کی۔ سہاگ رات کی صبح کوسویرے سویرے والدہ صاحبہ کے کمرے میں پہنچنے کی سعادت حاصل کی تاکہ انھیں خوشی حاصل ہو ۔ اورمیری عزت میں اضافہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی  یقین ہوجائے کہ میرا بیٹا زن مرید نہیں ہے بلکہ میراخیال رکھتا ہے۔

اور مجھے اپنی بیوی پر ترجیح دیتا ہے ۔ مگر صورت حال بالکل برعکس نکلی ۔صرف علیک سلیک کا تبادلہ ہوا وہ بھی بادلِ ناخواستہ ۔ نہ کوئی بات کی اور نہ کچھ پوچھا ۔میں دیر تک گم صم بیٹھا رہا۔ مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔دن میں بھی کھانا ان کے ساتھ کھایا ۔مگران کی حالت وہی رہی۔ یہ توپتہ چلا کہ دال میں کچھ کالاکالا ہے ۔مگر میرا یہ خیال نہیں تھا کہ وہ مجھ پر ناراض ہیں۔ بہرحال تعین سے کوئی بات معلوم نہیں ہوسکی ۔ اگلے صبح میں نے پھر اسی عمل کو دہرایا۔ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ان کے تیور آج کچھ زیادہ ہی بدلے تھے۔ میرا دل بھی پریشانیوں کا مرکز بن گیا۔ پتہ نہیں کیا ماجرا ہے۔  دراصل میرے ذہن پر یہ بات سوار تھی کہ میں اپنے بڑے بھائی سے نمبر لے جاوں کیونکہ والدہ ان سے شاکی رہتی تھیں۔ صبح کا مرحلہ تو بخیر گذر گیا ۔کو ئی دھماکہ نہیں ہوا۔ دوپہرکو جب میں کھانے کے لیے پھر ان کے کمرے میں گیا۔

تو وہ کہنے لگیں۔ تمھیں کیا ہوا ہے کہ میرے کمرے کی طرف منہ اٹھاکے چلے آتے ہو۔ کیا تمھاری شادی ہم نے نہیں کرائی اور کیا تمھاری بیوی نہیں ہے؟ جاؤ دفع ہو جاؤ ۔خبردار جو پھر میرے کمرے میں کھانے کے لیے آئے۔ بس پھر کیا تھا ۔ میں فورا اپنے کمرے میں گیا اور اس حکم پر عمل درآمد ہوگیا ۔کیونکہ ان کی بات کو ٹالنا اس  مملکت کے رعایا کے لیے سرے سے ممکن نہ تھا۔ میں جب واپس ہوا تو بیوی نے میرے چہرے کو دیکھتے ہی پوچھا خیر ہے کیا ہوا  میں نے قصہ سنایا تو وہ اتنی خوش ہوئی کہ اسے چھپانا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ خلاصہ یہ کہ بیوی کھانا کمرے میں لے آئی ۔ ہم جب کھانا کھانے بیٹھے تو والدہ بھی حاضر ہوگئیں ۔ کچھ محبت کی باتیں کی۔ پھر کہنے لگی۔ بیٹا یہ لڑکی تیری خاطر اس گھر میں آئی ہے۔ لہذا تم اس کی دلجوئی کے لیے اس کے ساتھ ہی کھانا کھایا کرو ۔ بیوی نے والدین کی خدمت کو بھی اس میں شامل رکھنے کی کوشش کیں ۔مگر ناکام ہوگئیں۔ انہوں نے جوابا فرمایا بیٹا بیوی اصلا خاوند کے لیے ہوتی ہے۔

باقی سارے کام ثانوی ہوتے ہیں ۔ ان کے جانے بعد ہم دونوں پر جھوم برابر جھوم شرابی والی کیفیت طاری ہوگئی ۔ اس کے بعد میں اس اصول پر عمل پیرا توہوگیا ۔لیکن پورے طور پراس کو سمجھ نہیں سکا تھا ۔میں فراغت کے بعد کوئٹہ میں درس دینے لگا تھا۔ دوہفتے بعد گھر آنا ہوتاتھا۔ ایک دن میں معمول کے مطابق کوئٹہ سے گاوں آیا ۔ عادت کے مطابق والدہ کے کمرے میں حاضر ہوا۔ انھیں حسبِ معمول پوری رپورٹ پیش کردی۔ سن کرفرمانے لگیں، بیٹا بیوی کے لیے کھانے کی کیا چیز لے کر آئے ہو؟

میں نے کہا کچھ بھی نہیں۔ فرمایا: کیوں؟ پیسے پاس نہیں تھے ؟ میں نے کہا:  نہیں، پیسے تو ہیں۔ فرمایا: مجھے اس شخص سے بہت نفرت ہوتی ہے ۔جو بیوی کا خیال نہیں رکھتا ۔بیٹا کبھی گھر میں بغیر کسی تحفے کے داخل نہ ہونا۔ تمھاری بیوی پورے دوہفتےتمھارا انتظار کرتی ہے ۔گھر بار اور والدین کو آپ کی خاطر چھوڑ رکھا ہے۔ صرف یہ نہیں  بلکہ شب و روز آپ کے والدین کی خدمت میں لگی رہتی ہے۔ بیٹھا اگر پاس صرف پانچ روپے ہوں ۔تو بھی اس کی ٹافیاں لے کر آنا۔ میں نے اس نصیحت کو خود بھی محفوظ رکھا۔  جاکر بیوی کو بھی سنایا وہ دعایئں دینے لگی۔

پھر ایک عرصے تک والدہ پوچھتی رہی بیٹاکیا لائے ہو  جب انھیں یقین ہوگیا تو پھر پوچھنا ترک کیا۔ پھر جب ھم لاہور منتقل ہوگئیے تو ان کا مطالبہ یہ ہوتا تھا کہ کبھی کبھار بیوی اوربچوں کو مختلف پارکوں اور ہوٹلوں میں لے جاؤں۔ تاکہ وہ زندگی سے لطف اندوز ھوسکے۔ بعض اوقات تو بچے ان کو واسطہ بناکر پارک چلے جاتے۔ وہ خود ساتھ نہیں جاتی تھیں۔ ایک دو دفعہ زبردستی ہم انہیں لے بھی گئے۔ مگر ان کا اصرار یہ ہوتا کہ گھر پر ہی رہے ۔کیونکہ وہ بیمارتھیں سفر میں تکلیف محسوس کرتی تھیں ۔ ان کا اکثر یہ کھنا ہوتا تھا کہ اچھے لوگ بیوی اور بچوں کو وہی کھلاتے ہیں۔ جو وہ خود کھاتے ہیں ۔وہی پہناتے ہیں جو وہ خود پہنتے ہیں۔

وہ اکثر اوقات یہ دعا کرتیں یا اللہ میرے بیٹوں کو بیویوں کے بہترین خیال رکھنے والا بنا۔ ۔اس تربیت کا اثر ہے کہ ان کے بعض بیٹوں نے کبھی وہ چیز بازار میں نہیں کھائی جو انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو نہیں کھلائی۔ ان کی یہ بات اگرچہ مہذب معاشرہ میں ایک معمولی بات لگتی ہے  ۔مگر پشتون معاشرے میں اس کا تصور ہی نہیں ہوسکتا تھا اور پھر آج سے 20، یا 25، سال قبل تو بالکل یہ خیال ہی نا ممکن لگ رہا تھا۔

اس طریقہ تربیت کا یہ نتیجہ ہوا ۔کہ میری بیوی نے ہمیشہ اسے اپنی والدہ سے انہیں برتر اورعزیز ترسمجھا۔ زندگی بھر ان کی ایسی خدمت کی کہ پورے خاندان میں میرا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ شائد کوئی اپنے والدین کی بھی اس طرح خدمت نہ کریں ۔ اللہ والدہ مرحومہ کو جنت الفردوس نصیب فرمائے۔ بیوی کو سعادت کی زندگی سے نوازے  ۔اور یہ توفیق دے  کہ ان کے محاسن کو اگلی نسل تک منتقل کردیں ۔ اللہ اجر عظیم سے سرفراز فرمائے ۔آمین

واصل واسطی