سوال (5773)
کیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کو ان کی بیوی نے غسل دیا تھا کیا، کوئی حدیث ہے؟
جواب
جی ہاں، سیدہ اسماء بنت عمیس آپ کی بیگم تھی، انہوں نے آپ کو غسل دیا تھا، تفصیل کے لیے موطا امام مالک دیکھ لیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: شیخ محترم کہتے ہیں حدیث کے اندر ایک راوی ضعیف ہے؟
جواب: بات یہ ہے کہ اس پر ایک حدیث نہیں ہے، سیدہ فاطمۃ رضی اللہ عنھا کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا غسل دینا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ کو کہا تھا کہ آپ مجھ سے پہلے فوت ہو جاتی تو میں آپ کو غسل دوں گا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہے کہ یہ حدیث مجھے پہلے یاد آ جاتی تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیتی، اور بھی ادلہ ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: شیخ محترم صرف اس حدیث پر بات ہورہی تھی اس میں ایک راوی ہیں عبداللہ بن ابی بکر انہوں نے اسماء بنت عمیس کا زمانہ نہیں پایا اس وجہ سے یہ ضعیف راوی ہیں؟
جواب: جی بالکل ایسا ہی ہے۔
٣- وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ غَسَّلَتْ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ حِينَ تُوُفِّيَ، ثُمَّ خَرَجَتْ فَسَأَلَتْ مَنْ حَضَرَهَا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ. فَقَالَتْ: «إِنِّي صَائِمَةٌ، وَإِنَّ هَذَا يَوْمٌ شَدِيدُ الْبَرْدِ، فَهَلْ عَلَيَّ مِنْ غُسْلٍ؟ فَقَالُوا: لَا۔ (موطأ مالك – رواية يحيى – ت عبد الباقيم #١/٢٢٣)
هو عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم الأنصاري وهو ثقة إمام من شيوخ مالك ولكنه لم يدرك أسماء بنت عميس۔
تمام المنة في التعليق على فقه السنة ١/١٢١ — ناصر الدين الألباني (ت ١٤٢٠)
لہذا اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ
سبحان الله العظيم وبحمده۔۔۔
اس علت سے راوی ضعیف نہیں ہوا بلکہ یہ اثر منقطع ہے مگر صحیح شاہد کے ساتھ قابل اعتبار ہے، ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺣﺰﻡ راوی تو ثقہ حافظ تابعی ہیں۔
سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ کا سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی الله عنہا کو غسل دینے کے بارے روایت تو سنن داقطنی، السنن الکبری للبیھقی میں ہے مگر اسے حافظ ذہبی نے منکر وضعیف قرار دیا ہے۔
(تنقیح التحقیق للذہبی)
البتہ سلف صالحین کے آثار اس کے جواز پر موجود ہیں کہ زوج اور زوجہ ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں
جیسے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا کا اپنے شوہر سیدنا ابو بکر رضی الله عنہ کو غسل دینا ملتا ہے۔
دیکھئے موطا امام مالک:1/ 223رواية يحيى بن يحيى،ورواية أبي مصعب الزهري:(1006) 1/ 398
صحیح إلىﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ یعنی وہ ایک عمل کی خبر دے رہے ہیں مگر اصولا سند منقطع ہے۔
ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻭﻛﻴﻊ ﺑﻦ اﻟﺠﺮاﺡ ﻋﻦ ﺷﻌﺒﺔ ﻋﻦ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ ﺃﻭﺻﻰ ﺃﻥ ﺗﻐﺴﻠﻪ اﻣﺮﺃﺗﻪ ﺃﺳﻤﺎء، طبقات ابن سعد:3/ 151
ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ اﻟﻜﻼﺑﻲ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻫﻤﺎﻡ ﻋﻦ ﻗﺘﺎﺩﺓ ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ غسلته اﻣﺮﺃﺗﻪ ﺃﺳﻤﺎء ﺑﻨﺖ ﻋﻤﻴﺲ، طبقات ابن سعد:3/ 151 سنده حسن لذاته إلى قتادة
ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻭﻛﻴﻊ ﺑﻦ اﻟﺠﺮاﺡ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺷﺮﻳﻚ ﻋﻦ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻠﻴﻜﺔ ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ ﺃﻭﺻﻰ ﺃﻥ ﺗﻐﺴﻠﻪ اﻣﺮﺃﺗﻪ ﺃﺳﻤﺎء.
طبقات ابن سعد:3/ 151 ابن أبی ملیکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے تلمیذ ہیں ممکن ہے یہ آپ نے انہی سے سنا ہو
ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﻌﺎﺫ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﺫ ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻷﻧﺼﺎﺭﻱ ﻗﺎﻻ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺷﻌﺚ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻮاﺣﺪ ﺑﻦ ﺻﺒﺮﺓ ﻋﻦ اﻟﻘﺎﺳﻢ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ اﻟﺼﺪﻳﻖ ﺃﻭﺻﻰ ﺃﻥ ﺗﻐﺴﻠﻪ اﻣﺮﺃﺗﻪ ﺃﺳﻤﺎء،
طبقات ابن سعد:3/ 152
ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﻌﻦ ﺑﻦ ﻋﻴﺴﻰ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﻌﺸﺮ ﻋﻦ ﻫﺸﺎﻡ ﺑﻦ ﻋﺮﻭﺓ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻋﻦ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ ﻏﺴﻠﺘﻪ ﺃﺳﻤﺎء ﺑﻨﺖ ﻋﻤﻴﺲ. طبقات ابن سعد:3/ 152سنده حسن لذاته
أبو معشر نجیح بن عبدالرحمن المدنی روایت حدیث میں ضعیف ہے مگر مغازی وتاریخ میں صدوق ومعتبر ہے۔ حافظ خلیلی نے کہا:
ﻭﻟﻪ ﻣﻜﺎﻥ ﻓﻲ اﻟﻌﻠﻢ ﻭاﻟﺘﺎﺭﻳﺦ ﻭﺗﺎﺭﻳﺨﻪ ﻣﻤﺎ ﻳﺤﺘﺞ ﺑﻪ اﻷﺋﻤﺔ ﻓﻲ ﻛﺘﺒﻬﻢ ﻭﺿﻌﻔﻮﻩ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻟﻢ ﻳﺘﻔﻘﻮا ﻋﻠﻴﻪ، الإرشاد للخليلي:1/ 300
کسی صحابی سے زوجہ کو غسل دینے پر انکار کرنا ثابت نہیں ہے نہ ہی کتاب وسنت میں اس کی ممانعت موجود ہے۔
جب زندگی میں زوج اور زوجہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم راز رہے رہیں تو غسل میت دینے میں کوئی چیز مانع نہیں نہ ہی یہ عیب والا عمل ہے بلکہ حقیقی پردہ اس موقع پر بھی وہی ایک دوسرے کا رکھ سکتے ہیں۔
ثقہ تابعی امام حسن بصری کہتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں (یعنی بیوی شوہر کے فوت ہونے پر اور شوہر بیوی کے فوت ہونے پر )
دیکھیے مصنف ابن أبی شیبہ:(11299) صحیح۔
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کو قمیص کے اوپر سے ہی پانی ڈال کر غسل دیا گیا تھا تو ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرمایا کرتی تھیں۔
لَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا غَسَلَهُ إِلَّا نِسَاؤُهُ،
اگر مجھے اس معاملے کا پہلے علم ہو جاتا جس کا بعد میں ہوا ہے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم کو آپ کی ازواج ہی غسل دیتیں۔
سنن أبو داود:( 3141)، مسند أحمد بن حنبل:(26306) سنن ابن ماجہ:(1464)،مسند أبی داود الطیالسی:(1634) حسن لذاته۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ