سوال (5279)
ایک عورت جس کے پاس پہلے شوہر سے بچی ہے، وہ دوسرے شوہر سے شادی کر لی ہے، کیا وہ بچی کو دوسرے شوہر کے نام سے اندراج کر سکتی ہے؟
جواب
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اُدۡعُوۡهُمۡ لِاٰبَآئِهِمۡ هُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ” [الأحزاب: 5]
انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف کی بات ہے۔
لکھنے، پڑھنے اور پکارنے میں بچے کو باپ کی طرف منسوب کرنا چاہیے، ہر جگہ سرپرست نہیں ہوتا اور نہ ہی سرپرست سے کام چلتا ہے، اگر وہ مجبوراً نام دے دیتے ہیں، تو میں اس میں کوئی سختی نہیں پاتا، اس کی ماں کا جو دوسرا شوہر ہے، بھلے اس کے نام اس کو لکھوانا چاہیے، قانون ہے تو فائدہ اٹھانا چاہیے، لیکن ایک کاغذ ضرور ہونا چاہیے، جس سے واضح ہو کہ یہ اس کی بچی نہیں ہے تاکہ میراث اور ترکے کا مسئلہ نہ بنے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: ترکہ اور وراثت کے معاملات تو پیدا ہونگے ہی چونکہ وہ قانوناً اس کی بیٹی بن گئی ہے اور وراثت تو وفات کے بعد آٹو میٹکلی تمام پوری اولاد میں منتقل ہو جاتی موجودہ کمپیوٹر رائز دور میں لکھی ہوئی تحریر کا میرے خیال سے کچھہ فائدہ نہ ہو گا، یہی اس معاملے میں سب سے بڑی پیچیدگی ہے؟
جواب: جب دل انسان کا خراب ہو جائے تو سب کچھ خراب ہو جاتا ہے، دنیا کے ٹکوں کے لیے لوگ فائدہ تو اٹھا جاتے ہیں، باوجود اس کے وہ حقیقت کو بھی جانتے ہیں، لیکن قانون میں یہ بات ہے کہ یہ بچہ آپ نے لے پالک لیا ہوا ہے، یہ آپ کا اصلی بچہ نہیں ہے، جب واضح ہوگیا ہے کہ یہ بچہ اپنا نہیں ہے، لے پالک ہے، جب قانون اور شریعت ایک ہی پیج پر ہیں، پھر حقدار وہ ہی ہوتا ہے، جو شرعی طور پر وارث ہو۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ