سوال
بیوی کی غیر موجودگی میں، شوہر نے اس کے بھائیوں اور والد کے سامنے کہا کہ “میں تمہاری بہن کو تین طلاق دیتا ہوں”۔ کیا اس طرح طلاق ہو جاتی ہے؟
شائستہ باسط، زوجہ باسط اسلم
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اگر شوہر بیوی کی غیر موجوگی میں بیوی کے بھائیوں اور والد کے سامنے اس طرح طلاق دیتا ہے تو طلاق ہو جائے گی، کیونکہ جب طلاق کا لفظ منہ سے بول دیا جائے یا ہاتھ سے لکھ دیا جائے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ، أَوْ تَكَلَّمْ بِهِ”. [صحیح مسلم: 127]
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کی ان باتوں سے درگزر فرمایا ہے جو وہ دل میں اپنے آپ سے کریں ، جب تک اس پر عمل یا کلام نہ کریں‘‘۔
یعنی جب تک کسی کے دل میں کوئی بات رہتی ہے، تو اسکا کوئی اعتبار نہیں ہوتا، لیکن جب زبان پہ آ جائے یا عملی طور پر ظاہر ہوجائے تو پھر وہ معتبر ہوتی ہے، اسی طرح طلاق کی بات جب تک دل اور ذہن میں ہو تب تک اسکا کوئی اعتبار نہیں، لیکن جونہی کوئی واضح طور پر طلاق کا لفظ بول یا لکھ دیتا ہے، تو وہ طلاق ہو جائے گی، اب چاہے وہ بیوی کے سامنے کہے یا بیوی کی عدم موجودگی میں کہے۔ لہذا مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہوچکی ہے، لیکن چونکہ اس نے بیک وقت ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں، اگر اس نے اس سے پہلے کبھی طلاق نہیں دی تو انکی ایک ہی طلاقِ رجعی واقع ہوئی ہے۔
کیونکہ کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں دی گئی بیک وقت تین طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے، بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقع ہو۔ اسکے دلائل حسب ذیل ہیں:
1۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
“الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ”. [البقرة: 229]
’ طلاق دو بار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے‘۔
اگر تینوں طلاقیں بیک وقت شمار کرلی جائیں، تو ’روک رکھنے‘ کا مفہوم ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح فرمایا:
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ} [الطلاق: 1]
’ اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو ‘۔
اگر تینوں طلاقیں ایک ہی مرتبہ شمار کرلی جائیں، تو پھر خاوندوں کے لیے عدت شمار کرنے اور حساب رکھنے کا کوئی مطلب باقی نہیں رہتا!
2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد نبوت، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں تین طلاقیں، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی، اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم، الطلاق،1472) تاہم سیدنا عمر رضی اللہ کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا، جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔ [ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق، 2/ 277، اور حاشیہ طحطاوی على الدر المختار]
3۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں۔ لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اسے طلاق کس طرح دی تھی؟ عرض کیا: تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا: ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں؟ عرض کیا! ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔ راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔ [مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر]
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التأویل”. [فتح الباری : 362/ 9]
یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل کی حیثیت رکھتی ہے جس کی کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی۔ بعض علمائے احناف نے بھی دلائل کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی دیا ہے۔ ان علما میں مولانا پیر کرم شاہ ،مولانا عبدالحلیم قاسمی، مولانا حسین علی واں بھچراں ،مولانا احمد الرحمٰن اسلام آباد اور پروفیسر محمد اکرم ورک سرِفہرست ہیں ۔ ان کے فتاویٰ کی تفصیل( ایک مجلس میں تین طلاق ) نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال ان حقائق کی روشنی میں ایک باغیرت مسلمان کے لیے گنجائش ہے کہ اگر اس نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں تو دورانِ عدت بلاتجدیدِ نکاح رجوع کر سکتا ہے، اور اگر عدت گزر چکی ہے تو بھی تجدید ِنکاح سے اپنا گھر آباد کرسکتا ہے۔ قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی فتوی دیا جاتاہے۔
لہذا مذکورہ شخص نے جو ایک ہی مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دی ہیں، اگر اس سے پہلے اس نے کبھی طلاق نہیں دی تو انکی ایک طلاق رجعی واقع ہو چکی ہے، اس صورت میں یہ عدت کے اندر اندر رجوع کر کے گھر کو آباد کر سکتے ہیں، لیکن اگر عدت گزر گئی ہے تو پھر نئے سرے سے نکاح کرنا ضروری ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ