سوال (4986)
ایک آدمی فوت ہوا اس نے ترکے میں 5 مرلے کا گھر چھوڑا ہے، فوت ہونے والے کا ایک بھائی ہے، فوت ہونے والے کی دو بہنیں ہیں، اولاد میں ایک بیٹی ہے، ایک بیوہ ہے، ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟ بیوہ نے اپنی زندگی میں بیٹی کے حصے کے علاوہ جو اسے خاوند سے وراثت میں ملا تھا، سارا مسجد کو وقف کر دیا، جب وہ فوت ہوئی تو اس کے وارثین میں صرف ایک بیٹی موجود ہے، تو اس بیٹی کو ماں کی وراثت سے کتنا حصہ ملے گا؟ یا سارا حصہ ماں کی وصیت اور وقف کے بعد مسجد کو ملے گا؟
جواب
اس میں دو الگ الگ سوال بنتے ہیں۔
ایک یہ کہ خاوند کی وفات پر اس کے موجود ورثاء کا حصہ کتنا ہوگا۔
دوسرا یہ کہ بیوی کی وفات پر اس کی وصیت، وقف اور اکلوتی بیٹی کا حصہ کیسے طے ہوگا۔
پہلا سوال: فوت ہونے والے کی ایک بیٹی، ایک بیوہ، ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ 5 مرلہ مکان میں سے ہر ایک کو کتنا کتنا حصہ ملے گا۔
جواب: بیٹی کو کل مالیت کا نصف یعنی اڑھائی مرلے،
بیوہ کو آٹھواں حصہ ملے گا۔
اور جو باقی بچ گیا اس کے چار حصے کر کے ایک ایک حصہ دونوں بہنوں کو اور دو حصے بھائی کو ملیں گے۔
اگر مکان کی مالیت کا تخمینہ لگایا جائے تو
••• بیٹی کو 50 فیصد
••• بیوہ کو 12.5 فیصد
••• بھائی کو 18.75 فیصد
••• ہر بہن کو 9.38 فیصد ملے گا۔
دوسرا سوال: بیوہ عورت نے اپنی زندگی میں خاوند کی وراثت سے ملنے والا تمام حصہ مسجد کو وقف کر دیا جب وہ فوت ہوئی تو اس کے ورثاء میں صرف ایک بیٹی ہے اس بیٹی کو ماں کی وراثت سے حصہ ملے گا یا سارا حصہ وصیت اور وقف کے بعد مسجد کو ملے گا۔
جواب: یہاں پر وقف اور وصیت کے حوالہ سے دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ عورت نے اپنی زندگی میں سارا حصہ مسجد کو وقف کیا اور اپنا قبضہ اور مالکانہ حق ختم کر کے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے مسجد کا انتظام چلانے والوں کے سپرد کر دیا تاکہ اسے مسجد کی ضروریات کے مطابق استعمال کیا جائے تو یہ وقف فی سبیل اللہ ہو گیا اب نہ وہ اس عورت کی ملکیت رہی اور نہ اس کی وراثت میں شامل ہو گا
دوسری صورت یہ کہ اپنا قبضہ برقرار رہا لیکن یہ کہہ دیا کہ میرے (مرنے کے) بعد یہ سارا حصہ مسجد کو دے دینا تو یہ وصیت ہے لیکن اس طرح ساری ملکیت کی وصیت کرنا شرعاً درست نہیں۔ اپنی وراثت میں سے زیادہ سے زیادہ ایک تہائی یعنی تیسرے حصے کی وصیت کی جا سکتی ہے اگر کوئی اس سے زیادہ وصیت کر بھی دے تو تیسرے حصے تک وصیت کا نفاذ ہو گا باقی ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا، موجودہ صورتحال میں اگر یہ وصیت ہے کہ میرے بعد سارا حصہ مسجد کو دے دینا تو اس کا تیسرا حصہ مسجد کو دیا جائے گا اور باقی بیٹی کو ملے گا،
مسجد کو تیسرا حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے گا اس میں سے نصف بیٹی کو وراثت کے حصے کے طور پر ملے گا جبکہ باقی نصف بھی دیگر تمام قرابت داروں کی غیر موجودگی اور گھر کی واحد فرد ہونے کی وجہ سے بطور عصبہ بیٹی کو ہی مل جائے گا۔
نوٹ: بیٹی چاہے تو اپنی ماں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اپنے حصے سے دستبردار ہو کر سب کچھ مسجد کو دے دے لیکن اس کے لیے اسے جذباتی یا معاشرتی کسی بھی پہلو سے مجبور نہیں کیا جائے گا چاہے تو دے دے چاہے تو اپنے پاس رکھ لے۔
فضیلۃ الباحث طارق رشید وہاڑی حفظہ اللہ