سوال (1800)

“صرف قربانی کرنا ہی سنت ابراہیمی نہیں ہے ، بلکہ بیوی کو ویران ریگستان میں چھوڑ کر آنا بھی سنت ابراہیمی ہے” کیا ایسا کہنا درست ہے ؟

جواب

کم عقلی اور کم علمی کی علامت ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

یاد رکھیں کہ اپنی اہلیہ کو بچے کے ساتھ ریگستان میں چھوڑنا سنت ابراہیمی نہیں ہے ، بلکہ رب کائنات کے حکم کی بجا آوری سنت ابراہیمی ہے ، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس بات کے کہنے والے نے قرآن مجید کا مطالعہ ہی نہیں کیا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔

“رَبَّنَاۤ اِنِّىۡۤ اَسۡكَنۡتُ مِنۡ ذُرِّيَّتِىۡ بِوَادٍ غَيۡرِ ذِىۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَيۡتِكَ الۡمُحَرَّمِۙ رَبَّنَا لِيُقِيۡمُوۡا الصَّلٰوةَ فَاجۡعَلۡ اَ فۡـئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهۡوِىۡۤ اِلَيۡهِمۡ وَارۡزُقۡهُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمۡ يَشۡكُرُوۡنَ‏” [سورة ابراهيم : 37]

«اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں آباد کیا ہے، جو کسی کھیتی والی نہیں، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ سو کچھ لوگوں کے دل ایسے کر دے کہ ان کی طرف مائل رہیں اور انھیں پھلوں سے رزق عطا کر، تاکہ وہ شکر کریں»
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ اور بیٹے کو ریگستان میں چھوڑا تھا ، اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کا جذبہ تھا ، اس طرح کل کوئی کہے گا کہ بیت اللہ کی تعمیر یا بیٹے کو ذبح کرنا سنت ابراہیم ہے ، اس طرح دین اسلام کہلاوٹ بن جائے گا ، اصل بات ابراہیم علیہ السلام کی زندگی “أسلمت لرب العالمين” کی سچی تصویر ہے ، ہمیں اس چیز پر زور دینا چاہیے اور اس پر غور کرنا چاہیے ، جب قوم نوح کے اوپر طوفان آیا تھا تو بیت اللہ کی عمارت منہدم ہوچکی تھی ، لیکن قرآن کے الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو پتا تھا کہ یہاں اللہ تعالیٰ کا گھر ہے ، ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی بیوی اور بچے کو اللہ تعالیٰ کے گھر کے پاس چھوڑ کر آئے ہیں ، اب ہمارے لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی بیوی اور بچے کو کہاں چھوڑ کر آئیں ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ