بیوی سے ماسی تک

بے کراں چاہتوں، بے پایاں پریم اور بے انتہا پریت سے لدے پھندے رشتے بھی ایسی ایسی مہیب، ہولناک اور عبرت ناک داستانوں میں ڈھل جاتے ہیں کہ قلب و نظر میں ایسے کسی بھی وہم و گمان کا گزر تک نہیں ہو پاتا۔سال کے دو عشروں تک انتہائی فہم و فراست اور سلیقہ شعاری کے ساتھ نبھائے جانے والے رشتوں میں منافرت اور مناقشت پر مشتمل دراڑیں پڑنے لگیں اور بسیار کوشش کے باوجود بھی یہ تعلقات دھیرے دھیرے نفرتوں ہی میں ڈھلنے لگیں تو سماعتوں کو یقین تک نہیں آتا کہ یوں بھی زیست میں ببول اگ کر ہر لمحے اور پر پَل کو لہو لہان کر ڈالتے ہیں۔
گاؤں بھر میں ان کی مَحبّتوں کا چرچا تھا۔برادری کے تمام لوگ منفرد چاہتوں میں ڈھلے اس جوڑے کو بہ طورِ تمثیل بیان کرتے تھے۔جب بھی محلے کی خواتین کے درمیان مَحبّت کے موضوع پر بات ہوتی تو اس پتی اور پتنی کو تشبیہہ اور استعارے کے طور استعمال کیا جاتا تھا۔بیس برسوں تک وہ دونوں اپنی مَحبّتوں کی مانگ میں کہکشانیں بھرتے رہے۔انھوں نے دشتِ حیات کو گلشنِ حیات بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا تھا۔ان بیس سالوں تک خاوند نے کوئی ایک تنخواہ بھی اپنے پاس نہ رکھی، سب کچھ بیوی کے حوالے کر رکھا تھا۔دریچہ ء خیال میں ہر سُو اور ہر سمت چاہتوں کے کنول کِھلے تھے۔سفر و حضر میں دونوں ساتھ رہتے۔جون ایلیا کے بہ قول:-
بِن تمھارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمھاری ہے
مَحبّت کی دودھیا کرنوں میں نہایا شوہر، اپنی بیوی کے اہلِ خانہ پر بے دریغ خرچ کرتا۔بیوی کے والدین، بہن اور بھائیوں کو جب بھی ضرورت پڑتی وہ دامے، درمے، قدمے سخنے ہر طرح تیار رہتا۔وہ تعلیمی اخراجات ہوں یا گھریلو ضروریات، وہ شوریدہ سَر، سب کچھ بے تحاشا لٹاتا چلا گیا۔ساس اور سسر جب بھی بیمار پڑتے وہ ان کا علاج کروانے پہنچ جاتا۔سسر ایک انتہائی غریب شخص تھا۔وہ پھلوں کی رہڑی لگاتا تھا، اس کا گھر دو بوسیدہ اور کچے کمروں پر مشتمل تھا جسے تعمیر کرنے میں بھی اس شخص نے کوئی بخل سے کام نہ لیا۔
اس عورت کے خاندان میں کسی نے پہلی بار میٹرک کا امتحان پاس کیا تو یہ اس کے خاوند ہی کا مرہونِ منت تھا۔کسی نے پہلی بار ایف ایس سی سے لے کر ایم ایس تک کا سفر طے کیا تو یہ سب بھی اسی شخص کے اسلوبِ مَحبّت کا ہی نتیجہ تھا۔اس عورت کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ایک بیٹا اور بیٹی جوان ہوتے گئے مگر اس خاتون کی توجہ اپنے بچوں سے زیادہ اپنے بہن بھائیوں کی طرف مرکوز رہی۔اس خاتون کو اپنے والدین کے گھر سے زیادہ اپنے شوہر کے گھر کا خیال رکھنا تھا مگر ایسا کوئی جذبہ اور احساس اسے چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔اس نے اپنی تمام صلاحیتیں اپنے بچوں کے مستقبل کے متعلق سوچنے کی بجائے اپنے بھائی بہنوں کی جانب مرکوز کر رکھی تھی، اس کا اپنا بیٹا بری صحبت اختیار کر کے بگڑتا جا رہا تھا مگر اسے کچھ پروا نہ تھی۔باپ اپنے بیٹے کو سمجھاتا تو وہ اپنے خاوند کے ساتھ باقاعدہ جنگ شروع کر دیتی۔اس کے بیٹے نے شیشہ پینا شروع کر دیا مگر اس عورت کو رتی بھر پروا نہ تھی۔اسے شیشہ پینے کی ویڈیو دِکھائی گئی تو وہ کہنے لگی کہ سب ہی شیشہ پیتے ہیں۔
چھنال رُتیں صرف گھر میں ہی نہیں آ دھمکی تھیں بلکہ اس خاتون کے دل میں اس طرح پنجے گاڑ چکی تھیں کہ وہ عورت بد لحاظ اور بد زبان ہوتی چلی گئی۔وہ بار بار اپنے شوہر کو جاہل اور ذلیل انسان کہنے میں ذرا تامّل نہ کرتی، حالاں کہ وہ خود پرائمری پاس اور خاوند نے چار مضامین میں ماسٹرز کر رکھی تھی۔اس کی زبان گز بھر لمبی ہوتی چلی گئی۔وہ اپنے خاوند کو گالیاں اور بد دعائیں دینے لگی تھی۔اسے بتایا گیا کہ صحيح بخاري کی حدیث 1462 میں فرمان نبوی ہے کہ ” اے عورتوں کی جماعت! صدقہ و خیرات کیا کرو بے شک مجھے دِکھایا گیا ہے کہ جہنم میں تمھاری اکثریت ہے تو وہ کہنے لگیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم گالی گلوچ بہت زیادہ کرتی ہو اور خاوند کی نافرمانی کرتی ہو “ مگر اس عورت کے کانوں پر کوئی جُوں تو کجا، لِیکھ تک نے خارش نہیں کی۔تین سال اسی لڑائی جھگڑے میں بیت گئے مگر کسی بھی سمت سے کوئی آسودہ جھونکا نہیں آ رہا تھا۔خاوند نے بڑی سوچ بچار کے بعد اسے ایک طلاق دے دی کہ شاید اس طرح اس کی عقل کچھ ٹھکانے آ جائے مگر ایک طلاق کے بعد وہ پہلے سے زیادہ پھنکارنے لگی تھی۔صحيح بخاري میں موجود اس حدیث کا بھی اس کے دل پر کوئی اثر نہ ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” مَیں نے دوزخ دیکھی تو وہاں اکثر عورتیں تھیں کیوں کہ وہ کفر کرتی ہیں۔لوگوں نے کہا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ وہ اپنے خاوند کا کفر کرتی ہیں، یعنی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموش ہیں۔وہ یوں کہ اگر تُو ساری عمر عورت سے اچھا سلوک کرے پھر وہ معمولی سی ( ناگوار ) بات تجھ میں دیکھے تو کہنے لگتی ہے کہ مجھے تجھ سے کبھی آرام نہیں ملا “ آٹھ ماہ بعد خاوند نے اسے دوسری طلاق دے ڈالی مگر اس کی دشنام طرازی تھی کہ بے لگام ہوتی جا رہی تھی۔یقیناً سبھی عورتیں ایسی نہیں ہوتیں۔عورتیں تو آبگینوں کی مانند ہوتی ہیں۔اسلام وہ واحد مذہب ہے جو عورت کے حقوق کا سب سے زیادہ محافظ ہے۔
پھر وہ وقت بھی آیا کہ یہ عورت خود تیسری طلاق کا مطالبہ کرنے لگی۔بہت سے اعزہ و اقربا نے اسے سمجھایا مگر سب فضول اور رایگاں تھا۔ایک غریب گھرانے کی عورت ہر حد سے گزر چکی تھی۔اس عورت کے بہن بھائیوں میں سے کسی نے بھی اس کے خاوند کو یہ تک نہیں کہا کہ ہماری بہن کو طلاق نہ دو۔دوسری طلاق کے پانچ ماہ بعد اسے تیسری مل گئی۔ایک عورت کی بدزبانی اور اپنے بچوں سے زیادہ اپنے بھائی بہنوں کے پیار نے اس کا گھر اجاڑ ڈالا۔آج اس عورت کو طلاق ہوئے تین مہینے گزر چکے اس کا کوئی بھائی اور کوئی بہن اسے اپنے گھر رکھنے کے لیے تیار نہیں۔وہ جو اپنے گھر کی رانی اور ملکہ ہوتی تھی آج ماسیوں کی طرح کام کر رہی ہے اور یہ سب کچھ اس کی زبان کا کیا دھرا ہے۔شاید! کہ بد زبان عورتیں اس سے عبرت حاصل کریں، کاش کہ تلخ اور تند زبان والی بیویاں کچھ سبق حاصل کر لیں۔

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: اجڑا ہوا غزہ اور میری خواہش