سوال

اگر ایک کافر بوڑھا آدمی اسلام لے آئے تو اس کا ختنہ کرنا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

ختنہ امورِ فطرت میں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جب کوئی کافر مسلمان ہوتا اور اس کا ختنہ نہ ہوا ہوتا تو اسے ختنہ کا حکم دیا جاتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“الْفِطْرَةُ خَمْسٌ: الْخِتَانُ وَالِاسْتِحْدَادُ وَقَصُّ الشَّارِبِ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ وَنَتْفُ الْآبَاطِ”. [صحیح البخاری: 5891]

’’پانچ چیزیں ختنہ کرانا، زیر ناف بال مونڈنا، مونچھ کترانا، ناخن ترشوانا اور بغل کے بال نوچنا فطری امور اور پیدائشی سنتیں ہیں‘‘۔

ختنہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان امتیاز کی ایک علامت ہے۔ حتیٰ کہ معرکوں کے دوران میدانِ جنگ میں مسلمان اپنے شہداء کو ختنہ سے پہچانتے تھے اور اسے مسلمانوں کی امتیازی علامت سمجھتے تھے۔ جب یہ مسلمانوں کا ایک واضح شعار ہے تو مسلمان اور کافر کے درمیان فرق کے لیے اس کو اختیار کرنا ضروری ہے۔

مزید یہ کہ ختنہ مسلمان کی پہچان ہے،بوڑھا ہونا ختنہ کے لیے مانع نہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اَسّی سال کی عمر میں ختنہ کیا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

“اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِينَ سَنَةً بِالْقَدُّومِ”. [صحیح البخاری: 3356]

’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی سال کی عمر میں بسولے سے ختنہ کیا‘‘۔

لہٰذا ہر مسلمان بالغ شخص کا ختنہ کروانا ضروری ہے۔ آج کے دور میں جدید میڈیکل سہولتوں کے باعث یہ عمل نہایت آسان اور کم تکلیف دہ ہو گیا ہے۔ اس لیے ہر غیر مختون کافر شخص جو اسلام قبول کرے چاہے وہ بوڑھا ہی کیوں نہ ہو، اسے چاہیے کہ ختنہ کروائے اور مسلمانوں کے اس شعار کو اپنائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ