سوال (6281)

برادری اور ذاتوں کی عصیبت کی پکار کے لیے حدیث میں کیا وارد ہوا ہے؟

جواب

حدیث میں الفاظ آتے ہیں۔ اس کو کہہ دو کہ اپنے باپ کی شرمگاہ کو منہ میں ڈال دے، یہی الفاظ ہیں، یہ الفاظ پہلی مرتبہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہے تھے، آپ تو اس قدر فحش بات نہیں کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا تھا۔

عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَجُلًا اعْتَزَى بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَعَضَهُ وَلَمْ يُكَنَّهِ، فَنَظَرَ الْقَوْمُ إِلَيْهِ فَقَالَ لِلْقَوْمِ: إِنِّي قَدْ أَرَى الَّذِي فِي أَنْفُسِكُمْ؛ إِنِّي لَمْ أَسْتَطِعْ إِلَّا أَنْ أَقُولَ هَذَا؛ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنَا: (إِذَا سَمِعْتُمْ مَنْ يَعْتَزِي بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَعِضُوهُ وَلَا تَكْنُوا).

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

دیکھیں شیخ محترم نے کلیئر کر دیا کہ یہ الفاظ صحیح سند سے ثابت ہیں یہ پھر صحابی نے بھی کہے تھے اور اسی طرح کی بات بخاری میں ابو بکرؓ سے بھی مروی ہے جب انہوں نے عروہ سے حدیبیہ کے دن کہا کہ امْصُصْ بَظْرَ اللاَّتِ تو تو جا کر لات کی شرمگاہ کو چاٹ، جہاں تک ان الفاظ پہ فحش ہونے کا اعتراض کیا جاتا ہے تو یہ نا سمجھی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ ان فحش جگہوں کا مطلق نام لینا کسی کے ہاں فحاشی نہیں سمجھا جاتا بلکہ غلط معنی و مفہوم میں جب لیا جائے تب فحاشی کہا جاتا ہے ورنہ ذکر (شرمگاہ) کا نام ہم ڈاکٹر کے سامنے یا کسی کو شرعی مسئلہ بتاتے ہوئے حتی کہ ایک مرد ایک عورت کو مسئلہ بتاتے ہوئے بھی ذکر یا شرمگاہ کا لفظ استعمال کر سکتا ہے۔
میں آپ کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں کہ ہم یا رسول اللہ کہتے ہیں تو یہ کئی معنی میں کہا جاسکتا ہے مثلا اگر یہ استغاثہ کی نیت سے ہو تو کھلا شرک ہے لیکن اگر حکایت کی ہو جیسا کہ حدیث پڑھتے ہوئے تو یہ سنت ہے اسی طرح اگر تخیلاتی طور پہ کہا گیا ہو حقیقت میں یہ مقصود نہ ہو کہ رسول اللہ سن رہے ہوں گے جیسے فاطمہؓ نے یا ابتاہ کہا تھا تو بھی جائز ہو گا جیسے عمر نے ہجر اسود کو مخاطب کیا تھا۔
اسی طرح شرمگاہ کا ذکر کس مفہوم میں کیا جا رہا ہے اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔
میں ایک بالکل اسی شرمگاہ کو چاٹنے والی مثال بتاتا ہوں ہمارے علما سے اکثر اوررل سیکس کے بارے پوچھا جاتا ہے کہ شرمگاہ کو چاٹنا کیسا ہے تو اب اگر عالم وہی الفاظ دہرا دے کہ تم جو شرمگاہ کو چاٹتے ہو تو یہ ایسے ایسے ہے تو کیا یہ شرمگاہ کے چاٹنے کا ذکر فحش کلام تصور ہو سکتا ہے؟ نہیں کیونکہ یہ ایک فتوی ہے۔
بالکل اسی طرح کے جو الفاظ اوپر پوچھے گئے ہیں وہ عقوبت کا ذکر ہے کہ ایسا کرنے والا پھر ایسا کرنے والا ہو گا یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی کی پیٹھ پیچھے غیبت کرنے والے کو کہا گیا کہ اپنے سگے بھائی کا گوشت کھاو۔
واللہ اعلم بالصواب
یہاں یہ بھی یاد رکھ لیں کہ بعض جگہ سختی کرنے کی وجہ اسکی تاکید ہوتی ہے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ من یقتل مومنا متعمدا فجزاءہ جھنم خالدا فیھا یعنی قاتل ہمیشہ جہنم میں رہے گا اب یہاں الفاظ سے تو یہ لگ رہا ہے کہ قاتل پکا جہنمی ہے یعنی وہ کافر ہے مگر یہ عقیدہ خوارج کا ہے پس یہاں فقہا کے ہاں تاکید اور سختی مراد ہے حقیقت میں ابدی جہنمی مراد نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

یہ روایت جمیع اسانید وطرق کے ساتھ ضعیف ومنکر ہے۔
جتنے بھی طرق پاے ہیں سب میں حسن بصری کا عنعنہ ہے۔
عتی بن ضمرہ راوی کے أبی بن کعب سے اس روایت کے سماع میں نظر ہے۔
اور اس طرح کے راوی کا تفرد معتبر نہیں ہے۔ متن میں غرابت ہے۔ والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ