سوال (140)

برائلر کی خوراک میں پروٹین کے لیے بلیک سولجر فلائی (مکھی) کا لاروا (یعنی ابتدائی کیڑا) لے کر اس کی جدید طریقے سے نشونما کر کے بڑی تعداد میں حاصل کر لیا جاتا ہے اور اسی کیڑے کو پھر برائلر کی خوراک میں بطورِ پروٹین استعمال کیا جاتا ہے۔
کیا ایسا کرنا درست ہے؟ اس میں کوئی شرعی قباحت ہو سکتی ہے؟

جواب

اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جانور حرام و حلال کا مکلف نہیں ہوتا ہے، اگر آپ گھر میں بھی پالیں تو بادام پستے چھوڑ کر اس جانور کو یہی چیزیں کھانی ہیں، تو جانور ان چیزوں کا مکلف نہیں ہوتا ہے بس یہ بنیادی بات ہے، اس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے آج لوگ اختلاف شروع کردیتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: برائلر چکن کھانا کیسا ہے کیونکہ بعض مشائخ نے اس کو مشتبہات میں سے لکھا ہے اس بارے میں شرعی دلائل سے رہنمائی فرما دیں اللہ تعالی آپ کو برکتوں اور عزتوں سے نوازے۔

جواب: 1 مرغی کھانا حلال ہے۔ [بخاری: 4385]

2 بعض لوگوں کے دل میں شبہ ہوتا کہ برائلر مرغی کی جو فیڈ ہے یہ حرام چیزوں سے بنتی اس لیے مرغی کھانا حرام ہے۔ جبکہ اصلا تو

مرغی حرام کھائے پھر بھی اس کا گوشت حلال ہی ہوگا، شریعت میں ایسا کوئی قاعدہ نہیں کہ جو جانور حرام اشیاء کھائے اس کا گوشت بھی حرام ہوگا۔

3 مرغی جب حلال ہے تو اس کے تمام اعضاء حلال ہیں لہذا مرغی کے پر، انتڑیوں وغیرہ سے جو خوراک، فیڈ تیار کی جاتی ہے وہ حرام نہیں۔

برائلر مرغی کھانا حلال و طیب ہے۔ جس طرح دیسی مرغی حلال ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

برائلر مرغی بلاشبہ حلال ہے جس طرح گھر کی مرغی حلال ہے۔
حلت و حرمت کے کچھ شرعی اصول وقواعد ہیں اگر وہ سمجھ لیں تو مسئلہ سمجھنا آسان ہے۔
(1) ہر وہ جانور ،پرندہ اور چیز حرام ہے جس کے حرام ہونے کی صراحت قرآن وحدیث میں موجود ہے۔

(2) ہر وہ جانور اور پرندہ حرام ہے جسے مارنے کا حکم قرآن وحدیث میں موجود ہے۔

(3) ہر وہ جانور اور پرندہ اور چیز حرام ہے جسے مارنے سے منع کیا گیا ہے جیسے مینڈک۔

(4) ہر کچلی والا اور پنجہ مار کر شکار کرنے والا جانور اور پرندہ حرام ہے جسے ذی ناب،ذی مخلب کہتے ہیں جیسے کتا،خنزیر،چیتا،شیر،شکرا،باز وغیرہ۔

(5) ہر وہ جانور اور چیز حرام ہے جسے غیر الله کی خوشنودی اور اس کا قرب پانے کے لئے وقف کیا اور ذبح کیا جائے
مرغی برائلر ہو یا گھر کی ہو وہ ان میں سے کسی بھی قسم میں شامل نہیں ہے لہذا وہ بلاشبہ حلال ہے۔
رہا مسئلہ خوراک کا تو حلت و حرمت کا تعلق صرف انسانوں کے ساتھ ہے جانور،پرندے اس کے مکلف نہیں ہیں۔
پھر گھریلو مرغی بھی غلاظت تک کھا جاتی ہے کیڑے مکوڑے ،سانپ تک کھا جاتی ہے۔
تویہ چیزیں بھی ان کے جسم میں جا کر بے ضرر ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سانپ کھانے والی مرغی سانپ کھانے کے سبب مر گئے ہو پھر دجاج کا ذکر حدیث مبارک میں آیا ہے مگر اس سے مراد مرغی ہی ہے یا یہ مرغی سمیت دوسرے پرندے پر بھی بولا جاتا ہے یہ الگ بحث ہے۔

فائدہ: جس چیز کی حلت و حرمت واضح ہے وہ حرام و حلال ہے اور جس چیز کی حلت و حرمت واضح نہیں اور اس بارے سکوت ہے تو اسے ہم حرام نہیں کہہ سکتے الا کہ وہ اوپر کے بیان کردہ شرعی اصول کے اندر آ جائے تو حرام قرار پائے گی۔

اب چند آثار سلف صالحین ملاحظہ کریں:

ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺃﻫﻞ اﻟﺠﺎﻫﻠﻴﺔ ﻳﺄﻛﻠﻮﻥ ﺃﺷﻴﺎء ﻭﻳﺘﺮﻛﻮﻥ ﺃﺷﻴﺎء ﺗﻘﺬﺭا، ﻓﺒﻌﺚ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻧﺒﻴﻪ، ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﺃﻧﺰﻝ ﻛﺘﺎﺑﻪ، ﻭﺃﺣﻞ ﺣﻼﻟﻪ، ﻭﺣﺮﻡ ﺣﺮاﻣﻪ، ﻓﻤﺎ ﺃﺣﻞ ﻓﻬﻮ ﺣﻼﻝ، ﻭﻣﺎ ﺣﺮﻡ ﻓﻬﻮ ﺣﺮاﻡ، ﻭﻣﺎ ﺳﻜﺖ ﻋﻨﻪ ﻓﻬﻮ ﻋﻔﻮ ” ﻭﺗﻼ {ﻗﻞ ﻻ ﺃﺟﺪ ﻓﻴﻤﺎ ﺃﻭﺣﻲ ﺇﻟﻲ ﻣﺤﺮﻣﺎ}
ﺇﻟﻰ ﺁﺧﺮ اﻵﻳﺔ

سیدنا ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا:
کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ کئی چیزوں کو کھاتے اور کئی چیزوں کو ناپسند کرتے ہوئے چھوڑ دیتے تھے۔ تو الله تعالی نے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اپنی کتاب نازل کی حلال کو حلال اور حرام کو حرام ٹھہرایا۔ تو جس کو اس نے حلال کیا وہ حلال ہے اور جس کو اس نے حرام کیا وہ حرام ہے اور جس کے بارے میں خاموشی اختیار کی وہ معاف ہے اور پھر سورۃ الانعام کی آیت تلاوت فرمائی قل لا أجد فيما أوحي إلي محرما ،کہہ دیجئے میں اس وحی میں، جو میری طرف کی گئی ہے، کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام نہیں پاتا جسے وہ کھائے، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو کہ بے شک وہ گندگی ہے، یا نافرمانی (کا باعث) ہو، جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو، پھر جو مجبور کردیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو بے شک تیرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ ( الانعام: 145)

سنن أبو داود: (3800)، شرح مشكل الآثار للطحاوي: 2/ 228، 8/ 450 (3377)، مستدرک حاکم: (7113) صحیح

ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺃﺭاﻩ ﺭﻓﻌﻪ ﻗﺎﻝ: ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﺃﺣﻞ ﺣﻼﻻ، ﻭﺣﺮﻡ ﺣﺮاﻣﺎ، ﻓﻤﺎ ﺃﺣﻞ ﻓﻬﻮ ﺣﻼﻝ، ﻭﻣﺎ ﺣﺮﻡ ﻓﻬﻮ ﺣﺮاﻡ، ﻭﻣﺎ ﺳﻜﺖ ﻋﻨﻪ ﻓﻬﻮ ﻋﻔﻮ، السنن الکبری للبیھقی :(19722) صحیح

عبید بن عمیر نے کہا:

ﺃﺣﻞ اﻟﻠﻪ ﺣﻼﻟﻪ، ﻭﺣﺮﻡ ﺣﺮاﻣﻪ، ﻓﻤﺎ ﺃﺣﻞ ﻓﻬﻮ ﺣﻼﻝ، ﻭﻣﺎ ﺣﺮﻡ ﻓﻬﻮ ﺣﺮاﻡ، ﻭﻣﺎ ﺳﻜﺖ ﻋﻨﻪ ﻓﻬﻮ ﻋﻔﻮ
مصنف عبد الرزاق :(8767) صحیح
أخبرنا ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﻋﻄﺎء، ﻋﻦ ﻋﺒﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﻴﺮ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻝ: ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﺃﺣﻞ، ﻭﺣﺮﻡ ﻓﻤﺎ ﺃﺣﻞ ﻓﺄﺣﻠﻮﻩ ﻭﻣﺎ ﺣﺮﻡ ﻓﺎﺟﺘﻨﺒﻮﻩ، ﻭﺗﺮﻙ ﻣﻦ ﺫﻟﻚ ﺃﺷﻴﺎء ﻟﻢ ﻳﺤﺮﻣﻬﺎ، ﻭﻟﻢ ﻳﺤﻠﻬﺎ، ﻓﺬﻟﻚ ﻋﻔﻮ ﻣﻦ اﻟﻠﻪ ﺛﻢ ﻳﻘﻮﻝ: {ﻳﺎ ﺃﻳﻬﺎ اﻟﺬﻳﻦ ﺁﻣﻨﻮا ﻻ ﺗﺴﺄﻟﻮا ﻋﻦ ﺃﺷﻴﺎء}
[ اﻟﻤﺎﺋﺪﺓ: 101] اﻵﻳﺔ
مصنف عبد الرزاق:(8768) صحیح

اسی معنی کی حدیث أبی ثعلبہ ہے گو وہ ضعیف ہے مگر اس کی بنیاد و اساس ثابت و صحیح ہے۔
حافظ ابن رجب نقل کرتے ہیں:

ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﺴﻤﻌﺎﻧﻲ: ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﺻﻞ ﻛﺒﻴﺮ ﻣﻦ ﺃﺻﻮﻝ اﻟﺪﻳﻦ، ﻗﺎﻝ: ﻭﺣﻜﻲ ﻋﻦ ﺑﻌﻀﻬﻢ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﻟﻴﺲ ﻓﻲ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺣﺪﻳﺚ ﻭاﺣﺪ ﺃﺟﻤﻊ ﺑﺎﻧﻔﺮاﺩﻩ ﻷﺻﻮﻝ اﻟﻌﻠﻢ ﻭﻓﺮﻭﻋﻪ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﺑﻲ ﺛﻌﻠﺒﺔ، ﻗﺎﻝ: ﻭﺣﻜﻲ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻭاﺛﻠﺔ اﻟﻤﺰﻧﻲ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﺟﻤﻊ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ اﻟﺪﻳﻦ ﻓﻲ ﺃﺭﺑﻊ ﻛﻠﻤﺎﺕ، ﺛﻢ ﺫﻛﺮ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﺑﻲ ﺛﻌﻠﺒﺔ.
ﻗﺎﻝ اﺑﻦ اﻟﺴﻤﻌﺎﻧﻲ: ﻓﻤﻦ ﻋﻤﻞ ﺑﻬﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻓﻘﺪ ﺣﺎﺯ اﻟﺜﻮاﺏ، ﻭﺃﻣﻦ اﻟﻌﻘﺎﺏ؛ ﻷﻥ ﻣﻦ ﺃﺩﻯ اﻟﻔﺮاﺋﺾ، ﻭاﺟﺘﻨﺐ اﻟﻤﺤﺎﺭﻡ، ﻭﻭﻗﻒ ﻋﻨﺪ اﻟﺤﺪﻭﺩ، ﻭﺗﺮﻙ اﻟﺒﺤﺚ ﻋﻤﺎ ﻏﺎﺏ ﻋﻨﻪ، ﻓﻘﺪ اﺳﺘﻮﻓﻰ ﺃﻗﺴﺎﻡ اﻟﻔﻀﻞ، ﻭﺃﻭﻓﻰ ﺣﻘﻮﻕ اﻟﺪﻳﻦ، ﻷﻥ اﻟﺸﺮاﺋﻊ ﻻ ﺗﺨﺮﺝ ﻋﻦ ﻫﺬﻩ اﻷﻧﻮاﻉ اﻟﻤﺬﻛﻮﺭﺓ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ اﻧﺘﻬﻰ، جامع العلوم والحکم:2/ 153

الحاصل: ہمیں حلت و حرمت کے معاملے میں عجلت وجہالت سے کام نہیں لینا چاہیے ہے نہ ہی ہمیں کسی چیز کو حلال وحرام قرار دینے کا اختیار ہے۔
سو جو چیز قرآن وحدیث اصول شرعیہ کی روشنی میں حلال ہے اسے حلال اور جو چیز حرام ہے اسے حرام مانیں گے اور جہاں سکوت ہے وہاں سکوت اختیار کریں گے اور اسے حلال ہی مانیں گے اس لئے برائلر مرغی حلال ہے اس کی حرمت پر قرآن وحدیث واصول شرعیہ وفقہیہ میں کچھ بیان نہیں ہوا ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ