سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ ایک بھائی/ شخص نے آج سے تقریباً سات (7) سال پہلے اکتوبر 2018 میں ایک رئیل اسٹیٹ بلڈر کو 33 لاکھ روپے یکمشت ادا کیے جن کے عوض بلڈر نے یہ معاہدہ کیا کہ وہ اگلے چار سے پانچ سالوں میں 5 کمروں پر مشتمل ایک فلیٹ (ڈویلپمنٹ وغیرہ کے پیسے اضافی لینے کے بعد) ان بھائی/ شخص کے حوالے کر دے گا۔

چار سال گزرنے کے بعد ستمبر میں بلڈر نے یہ مشہور کرنا شروع کروا دیا کہ جس پروجیکٹ کے لیے انہوں نے یکمشت 33 لاکھ روپے لیے تھے وہ کچھ ناگزیر وجوہات کی بناء پر پائے تکمیل تک نہیں پہنچ سکے گا اور انہوں نے اس شخص سے کہا اگر وہ اپنی فائل وغیرہ ان کے آفس میں جمع کروادیں گے تو وہ اس کے عوض انہیں 33 لاکھ کے علاوہ کچھ اور اضافی رقم دے دیں گے۔ اس شخص نے اپنے اور اپنی فیملی کے لیے اس فلیٹ کیلئے رقم جمع کروائی تھی اس کے نزدیک پیسوں سے زیادہ فلیٹ ضروری تھا اس وجہ سے وہ مزید ایک سال انتظار کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اسے کوئی مناسب سا فلیٹ مل جائے مگر اس کا سارا انتظار بے سود جاتا ہے تو وہ بادل نخواستہ مجبوراً دسمبر 2023  میں اپنی فائل وغیرہ جمع کروا دیتا ہے جس کے عوض بلڈر نے اسے امید دلائی ہوتی ہے کہ وہ اسے اگلے سال 75 لاکھ روپے ادا کر دیں گے۔

مذکورہ صورت حال میں سوال یہ ہے کہ کیا بلڈر کا 33 لاکھ روپے سات سال پہلے فلیٹ کیلیے لینا اور سات سال بعد فلیٹ نہ  بنانے کے عوض 75 لاکھ روپے دینا شرعاً جائز ہے؟ کیا یہ سود کی مد میں تو نہیں آئے گا؟

شرعی اعتبار سے اس مسئلے کے کون کون سے حل ممکن ہو سکتے ہیں؟

اگر بلڈر اپنے وعدوں کی پاسداری نہ کرے تو کیا رب کی بارگاہ میں ان کی پکڑ ہوگی یا ان کی جو مجبوریاں ہیں ان کی بدولت ان کی معافی کی کوئی امید ہے؟

برائے مہربانی شریعت کی رو سے ان مسائل کا جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

یہ معاملہ سود کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اس شخص کے لیے اس اضافی رقم کا لینا دو وجوہ سے جائز اور درست ہے:

  1. یہ شخص خود اس اضافی رقم کا مطالبہ نہیں کر رہا بلکہ بلڈر از خود دے رہا ہے۔ جب بلڈر اپنی مرضی سے دے رہا ہے تو اس پر سود کی تعریف بالکل صادق نہیں آتی۔

اصل میں یہاں معاملہ یہ ہے کہ بلڈر نے وعدہ پورا نہیں کیا، اس شخص کے ساتھ زیادتی ہوئی، لہٰذا بلڈر اگر اس زیادتی کی تلافی کے طور پر اضافی رقم دینا چاہتا ہے تو یہ احسان اور خیر خواہی کے طور پر ہے، اور شرعاً یہ لینا بالکل جائز ہے۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی نے کسی کا نقصان کر دیا اور پھر اس کی تلافی کے طور پر کچھ زائد دے دیا۔ یعنی یہ کوئی شرط یا طے شدہ نفع نہیں، اس لیے اس پر سود کا اطلاق نہیں ہوتا۔

  1. جب ایسی بیع یا معاملہ ہو جائے اور مقررہ وقت پر مطلوبہ کام پورا نہ کیا جائے، یہاں تک کہ پیسوں کی قدر (Value) میں نمایاں کمی آجائے مثلاً سات سال پہلے 33 لاکھ میں جو فلیٹ ممکن تھا، آج وہی چیز دوگنی رقم میں بھی نہیں مل سکتی۔ تو ایسی صورت میں اس شخص کو نقصان اور کمی کی تلافی کا حق حاصل ہوتا ہے۔

مجمع الفقہ الاسلامی کے فقہائے کرام اور دیگر محققین نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اگر ادائیگی میں طویل تاخیر ہو جائے اور اس دوران “زر” کی قدر میں نمایاں کمی واقع ہو جائے (یعنی ثلث یا اس سے زیادہ)، تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس کمی کا ازالہ کیا جائے۔

چنانچہ اگر بلڈر اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اضافی رقم دے تو وہ سود نہیں بلکہ نقصان کی تلافی اور اس شخص کیساتھ خیر خواہی ہے۔

لہٰذا بلڈر کے ذمے لازم ہے کہ وہ یا تو اصل معاہدہ پورا کرے یا اس شخص کے نقصان کا ازالہ کرے، کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

“يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ‌”. [المائدہ: 01]

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! عہد پورے کرو۔

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ”. [سنن أبی داؤد: 3594]

مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ