سوال (5764)

ہم آٹھ بہن بھائی ہیں: چار بھائی اور چار بہنیں۔
1. 1998/1999 تک دو بہنوں کی شادیاں ہو چکی تھیں۔
2. انہی دنوں بھائیوں میں کاروبار پر اختلاف پیدا ہو گیا، اور دو بھائیوں نے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔
3. والد محترم (جو ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے اور تمام کاروبار—چکی و آرا—بیٹوں کے حوالے کر دیا تھا) نے اختلاف ختم کرنے کے لیے اپنی جائیداد تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔
4. والد نے اپنی جائیداد سات حصوں میں تقسیم کی:
ایک حصہ اپنے لیے، ایک حصہ اپنی بیوی (ہمار ی والدہ) کے لیے، ایک حصہ اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کے لیے
اور چار حصے اپنے چار بیٹوں کے لیے،
شادی شدہ دو بیٹیوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنا حصہ (تحائف کی صورت میں) لے چکی ہیں۔
5. والد نے اپنا حصہ، اپنی بیوی کا حصہ اور دو چھوٹی بیٹیوں کا حصہ دو بیٹوں کے سپرد کیا اور کہا: “یہ بیٹیاں اور ہم دونوں میاں بیوی تمہارے ساتھ ہیں، ہماری دیکھ بھال کرو، اور بیٹیوں کا حصہ ان کے نکاح کے وقت تحائف پر خرچ کرنا ہے۔”
6. اس طرح تین حصے دو بھائیوں کے سپرد ہوئے۔
7. باقی دو بھائیوں کو دیگر دو بھائیوں نے نقد رقم دے دی، اور والد نے پوری جائیداد ان دو بھائیوں کے نام انتقال کروا دی۔
8. 2008 میں والد کا انتقال ہو گیا۔
9. 2010 میں ایک بہن کو نکاح کے وقت تحائف کی صورت میں حصہ دیا گیا۔
10. 2020 میں دوسری بہن کو بھی نکاح کے وقت تحائف دیے گئے۔
11. 2023 میں والدہ کا انتقال ہو گیا۔
اب بہنوں کا مطالبہ ہے کہ:
والد نے جائیداد تو بھائیوں کے نام کر دی تھی، لیکن ہمارا وراثتی حصہ نہیں دیا۔
شادی پر جو تحائف دیے گئے وہ صرف ہبہ (گفٹ) تھے، اس سے وراثت ادا نہیں ہوئی۔
لہذا ان کا اصل وراثتی حق ابھی باقی ہے۔
مزید یہ کہ بھائیوں نے جائیداد سے کاروبار کر کے جو منافع کمایا، اسے بھی سب میں تقسیم کیا جائے؟
جزاکم اللہ خیراً وبارک فیکم

جواب

بشرط صحت سوال!

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد:

آپ کے سوال میں بیان شدہ حالات کے مطابق درج ذیل نکات قرآن و سنت اور فقہاء کے اقوال سے واضح ہوتے ہیں:
1. والد کی تقسیم کی شرعی حیثیت
والد اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو ہبہ (گفٹ) دے سکتا ہے، لیکن اس میں عدل شرط ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

اتَّقُوا اللهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلادِكُم۔ (صحیح بخاری: 2587، صحیح مسلم: 1623)

“اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔”
اگر والد ساری جائیداد تقسیم کرے تو عدل کی راجح صورت یہ ہے کہ

“للذَّكر مثل حظِّ الأُنثَيَيْنِ”

(بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ) کے اصول پر دیا جائے، جیسا کہ وراثت میں قاعدہ مقرر ہے (النساء: 11)۔
لہذا والد نے اگر کچھ اولاد کو دیا اور کچھ کو محروم رکھا، تو یہ تقسیم عدل کے خلاف تھی اور شرعاً ناقص شمار ہوگی۔
اگر سب ورثاء رضامندی سے والد کی تقسیم کو کالعدم قرار دے دیں اور وراثتی اصولوں پر دوبارہ تقسیم کریں تو یہ جائز اور بہتر ہے۔
2. شادی شدہ بیٹیوں کو دیے گئے تحائف
والد نے جو کچھ شادی پر تحائف کی صورت میں دیا تھا وہ محض ہبہ تھا، وراثت نہیں۔
کیونکہ قرآن کا اصول ہے کہ:

“مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ” (النساء: 11)

“وراثت کا حق وفات کے بعد ہی بنتا ہے، وصیت یا قرض کی ادائیگی کے بعد۔”
لہذا ان کا یہ مطالبہ درست ہے کہ والد کے مرنے کے بعد وراثت ان کو بھی ملنی چاہیے۔
3. چھوٹی بیٹیوں کو دیا گیا حصہ
والد نے ان کا حصہ دو بھائیوں کو بطور امانت دیا تھا کہ شادی کے وقت تحائف کی صورت میں دیا جائے۔
یہ تحائف جب شادی پر دے دیے گئے تو والد کی ہدایت پوری ہوگئی۔ یہ صرف اصل حصے کی ادائیگی تھی۔
منافع میں ان کا حق باقی ہے۔
4. بھائیوں کا کاروبار اور اجرت
اگر دو بھائیوں نے کاروبار سنبھالا اور والد، والدہ اور بہنوں کی دیکھ بھال کی تو ان کی محنت کا حق ہے کہ وہ معروف اجرت لیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه۔ (سنن ابن ماجہ: 2443)

لہذا اگر پہلے طے نہیں ہوا تھا تو اب کسی غیر جانبدار فریق کے ذریعے منصفانہ اجرت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
5. تحائف میں برابری
عدل یہ ہے کہ: یا تو سب بہن بھائیوں کو تحائف میں برابر کر دیا جائے،
یا تحائف کی مالیت ترکہ میں شامل کر کے تقسیم کی جائے تاکہ کمی بیشی ختم ہو جائے۔
یہ اصول حدیث کے مطابق ہے:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِكُمْ. (ابوداود: 3544)

“رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اپنی اولاد میں عدل کرو، اپنی اولاد میں عدل کرو۔‘‘
6. گھریلو اخراجات
والدین کی زندگی میں جو گھریلو اخراجات ہوئے وہ ترکہ میں شمار نہیں ہوں گے، اور ان کا حساب نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ والدین کی ذمہ داری یا مشترکہ گھر کے نظام کا حصہ تھے۔
7. تقسیم کا طریقہ
موجودہ وقت میں جائیداد اور کاروباری اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو لگائی جائے۔
کاروبار کرنے والے بھائیوں کو ان کی محنت کا حق اجرت دیا جائے۔
تحائف کی کمی بیشی برابر کر دی جائے۔
پھر جو خالص مال بچے وہ شرعی اصول

“للذَّكر مثل حظِّ الأُنثَيَيْنِ”

کے مطابق ورثاء میں تقسیم کیا جائے۔
حتمی فیصلہ
1. والد کی تقسیم عدل پر مبنی نہیں تھی، لہذا اگر سب ورثاء متفق ہوں تو اسے کالعدم کر کے ازسرنو تقسیم کرنا درست ہے۔اور اسی میں ورثاء کی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے
2. بڑی بیٹیوں کو دیے گئے تحائف وراثتی حصہ نہیں تھے، ان کا اصل حصہ باقی ہے۔
3. چھوٹی بیٹیوں کا حصہ تحائف کی صورت میں ادا ہوگیا، لیکن کاروباری منافع میں وہ شریک ہیں
4. کاروبار کرنے والے بھائیوں کو ان کی محنت کی اجرت ملنی چاہیے۔
5. سب بہن بھائیوں کے تحائف کو دوبارہ حساب میں شامل کر کے کمی بیشی ختم کی جائے۔
6. بچا ہوا خالص مال قرآن کے اصولوں کے مطابق تقسیم کیا جائے۔
اس طریقہ کار سے سب ورثاء کا حق پورا ہو جائے گا، اور کسی پر ظلم یا زیادتی نہ ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب
جواب: یہ کن کا جواب ہے؟ کافی معتدل جواب ہے۔
بس حتمی فیصلہ کے پوائنٹ 3 میں کہا گیا کہ چھوٹی بیٹیوں کا حصہ ادا کردیا گیا!
تو میری رائے میں انکو انکی شادی کے اخراجات کی مد میں والد صاحب کی طرف سے جو پیسے ملے وہ بھی بڑی بہنوں کی طرح تحائف شمار ہونگے۔ ترکہ کا حصہ نہیں۔
لہذا ان کا بھی پورا وراثتی حصہ باقی ہے۔ جس طرح بڑی بہنوں کا باقی ہے۔
بہرحال تصدیق بڑے علماء نے کرنی ہے۔ باقی تو ہمیں صحیح لگ رہا ہے ان شاءاللہ۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

1۔ اولاد کے درمیان عدل لازم ہے۔ [بخاری: 2650]
جو بھی چیز بطور تحفہ دی جائے اس میں عدل لازم ہے۔ یا تو بیٹی، بیٹوں سب کو برابر دی جائے یا تو کسی کو نہ دی جائے۔ حتی کہ اگر کسی ایک کو دے دی ہو اور باقیوں کو محروم رکھا ہو تو پہلے سے بھی واپس لینے کا حکم ہے۔
[بخاری: 2586]
باپ نے چونکہ اصلا تو بطور ترکہ ہی مال تقسیم کیا لیکن اس میں عدل نہیں ہے۔ لہذا سب کو جو جو بھی دیا (بطور ترکہ میں حصہ)خواہ وہ شادیوں پر تحائف(جہیز) ہو، کاروبار میں مالک بنانا ہو، یہ سب بطور ترکہ دوبارہ سے تقسیم ہوگا۔ جس میں مالیت کا حساب کرکے ہر بیٹی کو ایک اور بیٹے کو دو دو حصے دیے جائیں۔[النساء: 11]
2 ۔جو کاروبار ہے اس میں منافع بھی شرعا ترکہ میں شمار کرکے تقسیم کریں، جس میں بھائیوں نے جو کاروبار چلایا محنت کی اس کی ماہانہ اجرت حساب کرکے کل نفع میں سے نفی کردیں۔ باقی کا منافع ورثاء میں شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کرلیں۔
تنبیہ: اس میں یہ بھی دیکھیں کہ حساب پچھلے سالوں کا ہورہا ہے لہذا ماہانہ اجرت بھی پچھلے سالوں میں ہر سال، مہینے کی معروف اجرت کے مطابق ہوگی۔ ایسا نہیں کہ 2025 میں ماہانہ اجرت 50 ہزار بنتی ہے تو 2010 میں بھی ماہانہ اجرت 50 ہزار ہی شمار ہوگی۔ ایسا نہیں۔ بلکہ ہر سال میں ماہانہ اجرت اس سال میں رائج معروف اجرت ہی کے مطابق ہو۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
اس سے کچھ اختلاف کیا جائے گا۔ حتمی فیصلہ میں درج نکات پر نظر ثانی کرلی جائے۔
2: اس میں لکھا کہ شادی کے تحائف/ جہیز کو ترکہ شمار نہ کریں۔ لیکن جب والد صاحب نے ارادتا شادی پر تحائف متعین کرکے حصے کے طور پر ہی دیے تو اسے ترکہ ہی میں شمار کرنا چاہیے۔ ورنہ تو بھائیوں کے ساتھ ناانصافی ہے کہ بیٹیوں کو تحائف کی صورت میں بھی حصہ مل گیا اور مزید بھی بھائیوں کو دیے جانے والے حصہ میں سے اپنا حصہ طلب کررہی ہیں۔ یہ عدل نہیں۔
البتہ اگر والد صاحب نے جہیز دیتے وقت باقاعدہ حصہ شمار نہ کیا ہوتا تب الگ صورت بن سکتی تھی۔ لیکن مذکورہ صورت میں تو والد نے اپنا سب مال زندگی میں ہی تقسیم کرتے ہوئے شادیوں کے تحائف کو حصہ کے طور پر شمار کیا۔ اس لیے اصلا تو یہ جہیز کی مالیت بھی ترکہ میں شمار کرکے ورثاء میں تقسیم کی جائے، جیسے بھائیوں کو ملنے والا حصہ تقسیم ہوگا۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

سائل: آپ نے تنبیہ کے ضمن میں فرمایا کہ سالانہ بنیاد پر اجرت المثل طے کی جائے!
آپ کا ارشاد بجا ہے لیکن تمام منافع پراپرٹی کی شکل میں موجود ہے اس لحاظ سے منافع کا شمار بھی پراپرٹی کی قیمت خرید کے حساب کرنا چاہیے اور یہ ذرا مشکل حساب ھے نا ممکن نہیں اگر منافع سے خریدی گئی تمام جائیداد کی موجودہ مارکیٹ ویلیو لگائی جائے اور اجرت بھی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق طے کر دی جائے تو یہ انصاف کے منافی نہیں اور اس طرح حساب بھی آسان ہو گا۔ مزید رہنمائی علماء کرام ہی کر سکتے ہیں۔
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء
جواب: منافع پراپرٹی کی شکل میں کیسے؟ اگر تو صرف پراپرٹی ہو پھر تو بھائیوں کا اضافی کچھ حصہ نہیں ہوسکتا کیونکہ انہوں نے پراپرٹی پر کونسا کام/ محنت کی۔اگر باقاعدہ کاروبار کیا تو کاروبار کی مکمل نوعیت لکھ دیں کہ کس چیز کا کاروبار ہے۔

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

سائل: السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
شیخ محترم
بنیادی پراپرٹی جو والد صاحب نے اپنی زندگی میں تقسیم کی کاروبار(چکی۔ آرا جو کہ اجرتی نوعیت کا ہے یعنی کہ اجرت لے کر کسٹمرز کا کام کیا جاتا ہے)
اور رہائشی مکان
مشترکہ فیملی اخراجات کے بعد جو بچت ھوئی۔
اس بچت سے مختلف اوقات میں پراپرٹی خریدی گئی مثال کے طور
سنہ 2000 میں ایک پراپرٹی مبلغ 3 لاکھ روپے میں خریدی گئی جس کی موجودہ مالیت 36 لاکھ روپے ھے۔
سنہ 2000 میں مزدور کی ماہانہ اجرت تقریبا 2 ھزار روپے تھی
اب اگر اجرت المثل 2000 لگائی جائے تو اس وقت منافع بھی 3 لاکھ شمار ہوگا اس طرح دیگر ورثاء کی حق تلفی ھو گی کیونکہ بچت ھم سب ورثاء کی مشترکہ طے کر چکے ھیں۔
اگر ھم اجرت المثل تو سنہ 2000 والی لگائیں اور بچت سے خریدی گئی پراپرٹی کی قیمت موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق لگائیں تو محنت کرنے والوں سے زیادتی ھو گی۔
کیونکہ کرنسی اپنی ویلیو کھو چکی ہے۔
میری رائے یہی ہے کہ جبکہ تمام بچت سے وقتا فوقتا جائیداد خرید لی گئی تو تمام جائیداد کی بھی موجود مارکیٹ ویلیو لگائی جائے اور اجرت بھی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق طے کی جائے۔
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء

جواب: آپ کی رائے پر اگر سب اتفاق کرتے ہیں ورثاء تو بھی ٹھیک ہے۔

اس حوالے سے مختلف راستے اختیار کرکے حساب کیا جاسکتا ہے جس میں زیادہ احتیاط ہو۔ اور سب کا اتفاق ہو۔

یہ بھی معلوم ہو اندازا کہ ماہانہ اجرت محتاط اندازے کے مطابق ہر سال ہر مہینے کتنا رہا۔ یعنی جسوقت 20 ہزار اجرت تھی اس وقت منافع اگر 80 ہزار تھا تو گویا اجرت 25 فیصد رہی۔ اس طرح اندازا فیصد کی اوسط نکال لیں۔

مذکورہ صورت میں جب جائیداد خریدی گئی اس وقت میں کل نفع میں سے اجرت کی جتنی رقم تھی اس کا الگ حساب کرلیا جائے۔

مثلا جس وقت پراپرٹی خریدی گئی اس وقت کل منافع بیس لاکھ تھا، اس میں سے جتنے لاکھ ان کی اجرت بنتی ہے، اتنی جگہ کا اسے مالک سمجھا جائے۔ گویا کہ اس نے اپنی حاصل کردہ اجرت سے اس مکان میں انویسٹمنٹ کردی ہو۔

مثلا بیس لاکھ کا بیس مرلے پلاٹ لیا اور اس وقت ان کی اجرت 2 لاکھ بنتی تھی۔ یعنی اس اعتبار سے وہ دو مرلے کے مالک بنے۔
اب 2025 میں اس بیس مرلے کے گھر میں سے دو مرلے کا مالک سمجھا جائے گا اس بھائی کو اور باقی 18 مرلے بطور ترکہ تقسیم کرلیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ