سوال (1305)
درج ذیل واقعہ کا حوالہ اور تحقیق مطلوب ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بھیڑیئے نے ایک بکری کو پکڑ لیالیکن بکریوں کے چرواہے نے بھیڑئیے پر حملہ کرکے اس سے بکری کو چھین لیا۔ بھیڑیا بھاگ کر ایک ٹیلے پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اے چرواہے! اﷲ تعالیٰ نے مجھ کو رزق دیا تھا مگر تو نے اس کو مجھ سے چھین لیا۔ چرواہے نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم! میں نے آج سے زیادہ کبھی کوئی حیرت انگیز اور تعجب خیز منظر نہیں دیکھا کہ ایک بھیڑیا عربی زبان میں مجھ سے کلام کرتا ہے۔ بھیڑیا کہنے لگا کہ اے چرواہے! اس سے کہیں زیادہ عجیب بات تو یہ ہے کہ تو یہاں بکریاں چرا رہا ہے اور تو اس نبی کو چھوڑے اور ان سے منہ موڑے ہوئے بیٹھا ہے جن سے زیادہ بزرگ اور بلند مرتبہ کوئی نبی نہیں آیا۔ اس وقت جنت کے تمام دروازے کھلے ہوئے ہیں اور تمام اہل جنت اس نبی کے ساتھیوں کی شانِ جہاد کا منظر دیکھ رہے ہیں اور تیرے اور اس نبی کے درمیان بس ایک گھاٹی کا فاصلہ ہے۔ کاش! تو بھی اس نبی کی خدمت میں حاضر ہو کر اﷲ کے لشکروں کا ایک سپاہی بن جاتا۔ چرواہے نے اس گفتگو سے متاثر ہو کر کہا کہ اگر میں یہاں سے چلا گیا تو میری بکریوں کی حفاظت کون کرے گا؟ بھیڑئیے نے جواب دیا کہ تیرے لوٹنے تک میں خود تیری بکریوں کی نگہبانی کروں گا۔ چنانچہ چرواہے نے اپنی بکریوں کو بھیڑئیے کے سپرد کر دیا اور خود بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا اور واقعی بھیڑیئے کے کہنے کے مطابق اس نے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب کو جہاد میں مصروف پایا۔ پھر چرواہے نے بھیڑئیے کے کلام کا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمنے فرمایا کہ تم جائو تم اپنی سب بکریوں کو زندہ و سلامت پائو گے۔ چنانچہ چرواہا جب لوٹا تو یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بھیڑیا اس کی بکریوں کی حفاظت کر رہا ہے اور اس کی کوئی بکری بھی ضائع نہیں ہوئی ہے چرواہے نے خوش ہو کر بھیڑیئے کے لئے ایک بکری ذبح کرکے پیش کر دی اور بھیڑیا اس کو کھا کر چل دیا۔
(زرقانی جلد۵ ص۱۳۵ تا ص۱۳۶)
جواب
اوپر ذکر کردہ عبارت تو جیسا کہ ذکر ہے کہ امام زرقانی سے لی گئی ہے۔ امام قسطلانی کی سیرت پر معروف کتاب ہے المواہب اللدنیہ، امام زرقانی نے اس کی شرح لکھی ہے۔ کئی لوگ اسے مختصرا ’زرقانی’ ہی لکھ دیتے ہیں، جیسا کہ ہم عام طور پر ’بخاری، مسلم، ابو داود’ وغیرہ لکھ دیتے ہیں، لیکن یہ چونکہ عام لوگوں کے لیے مشہور نہیں، اس وجہ سے کئی لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ ’زرقانی’ سے کیا مراد ہے؟ بعض جگہوں پر ’شرح الزرقانی’ لکھا ہوتا ہے، اس سے بھی ابہام زائل نہیں ہوتا کیونکہ زرقانی کی موطا پر بھی شرح ہے۔
بہر صورت یہ واقعہ المواہب اللدنیہ میں «قصة كلام الذئب وشهادته له صلى الله عليه وسلم بالرسالة» کے عنوان سے موجود ہے، جس کے تحت مختلف روایات ذکر کی گئی ہیں اور امام زرقانی نے اس پر تعلیقات اور حواشی لکھے ہوئے ہیں۔ [شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 6/ 546 وما بعدھا]
یہ واقعہ الفاظ اور تفصیلات کے قدرے اختلاف کے ساتھ مسند احمد، مسند عبد بن حمید، سنن الترمذی، صحیح ابن حبان، ابو نعیم، بیہقی وغیرہ کی کتب دلائل النبوۃ، اسی طرح الفتن و علامات الساعۃ پر لکھی گئی مسند کتابوں میں کئی ایک صحابہ کی روایت سے مذکور ہے۔ اس کی تخریج و تحقیق ان کتب کے محقق نسخوں میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اس کی بعض روایات میں کلام ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ واقعہ ثابت ہے۔ جیسا کہ مسند احمد ط الرسالۃ کے حاشیہ میں، اسی طرح التعلیقات الحسان، صحیح موارد الظمآن اور انیس الساری وغیرہ میں تفصیل موجود ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ