سوال (4989)
“چیٹ جی پی ٹی” سے کس حد تک استفادہ کیا جا سکتا ہے؟
جواب
اس سوال کو سمجھنے کے لیے آپ چند مزید سوالوں پر غور کریں، مثلا کوئی کہے کہ موبائل سے کس حد تک استفادہ کیا جا سکتا ہے؟ انٹرنیٹ سے کتنا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ یا مثلا گوگل یا مکتبہ شاملہ کس حد تک مفید ہے؟!
چیٹ جی پی ٹی یا دیگر اے آئی ٹولز بھی اسی طرح کی سہولیات ہیں، جن میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی۔ استعمال کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ ان سے کیا فائدہ (یا نقصان) اٹھانا چاہتا ہے؟
اے آئی ٹولز کے بارے میں اصول یہ ہے کہ آپ انہیں اپنا معاون اور اسسٹنٹ سمجھیں، انہیں اپنا ٹیچر، قائد اور رہنما نہ سمجھیں۔ دوسرے لفظوں میں جس فن اور کام کے آپ ماہر ہیں اور اس میں کھرے کھوٹے کی پہچان رکھتے ہیں، اس میں سہولت اور سرعتِ انجاز کے لیے اے آئی ٹولز کو استعمال کریں اور پھر اے آئی جنریٹڈ چیز کو نظرثانی کرکے اس میں حسب ضرورت تبدیلیان کر لیں۔ لیکن اگر آپ کسی چیز کے ماہر نہیں ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ اے آئی کو پرامپٹ دے کر اس سے ’ماہرانہ رائے‘ لے لیں اور پھر اسی کو آگے شیئر کر دیں، یہ سیدھا سیدھا خسارہ ہے۔ اس کی مثال ہوائی جہاز کی ہو سکتی ہے یہ آپ کو گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کروا دے گا، لیکن ماہر پائلٹ کے لیے، اناڑی آدمی جہاز کو اڑا ہی نہیں سکتا اور اگر اڑا لیا تو پھر اس سے بھی خطرناک مرحلہ ہے کہ خود بھی تباہ اور دوسروں کے لیے بھی تباہی..!!
اور اس میں دلچسپ بات یہ ہے اے آئی جنریٹڈ مواد ’اہلِ فن‘ فورا پہچان لیتے ہیں، لہذا ایک اناڑی آدمی مصنوعی ذہانت کا استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ اپنے جیسے ’اناڑیوں‘ کو متاثر کر سکتا ہے، اہل فن اور متخصصین کی نظر میں اس کام کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
گوگل وغیرہ بڑی کمپنیوں کی طرف سے اب باقاعدہ اس قسم کے الگورتھم بنا لیے گئے ہیں کہ وہ اے آئی جنریٹڈ مواد میں فورا پہچان کر لیتے ہیں کہ یہ کسی ماہر اور متخصص کی کاوش ہے یا پھر کسی اناڑی کی طرف سے سطحی کوشش ہے۔
اے آئی کے استعمال کے مثبت استعمال کی بعض مثالیں:
1۔ کسی سوال کے علمی و تحقیقی جواب پر دو تین منٹ کی وائس ریکارڈ کر کے اے آئی کو دے دینا کہ اسے ’تحریری انداز‘ میں منتقل کر دیں، لیکن اپنی طرف سے دلائل اور موقف میں کمی بیشی نہ کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ جو کام آپ نے آدھے گھنٹے میں کرنا تھا وہ اے آئی کی مدد سے آپ دو چار منٹ میں کر لیں گے، اور اس میں موقف اور دلائل کے لحاظ سے کوئی کمزوری اور سطحیت بھی نہیں ہو گی۔
2۔ آپ نے ایک تحریر لکھی ہے، لیکن اس فارمیٹنگ کرنا بذات خود ایک محنت طلب کام ہے، لہذا آپ حسبِ سابق اے آئی کو کہیں کہ اس کی صرف فارمیٹنگ اور املاء وغیرہ درست کر دیں، اس کے علاوہ مزید کوئی کمی بیشی نہ کریں تو اس طرح آپ کافی وقت بچا لیں گے۔
3۔ کسی موضوع کے بارے میں رہنمائی کے لیے جس طرح ہم گوگل/ یوٹیوب وغیرہ سے مدد لیتے ہیں، اسی ذہن سے جنریٹڈ اے آئی کو استعمال کریں تو یہ زیادہ بہتر نتائج دیتا ہے۔ مثلا اگر آپ ایک اسلامک ایپ بنانا چاہتے ہیں تو آپ اے آئی سے مشورہ کریں، تو چند منٹوں میں بہت مفید معلومات ملنے کا امکان ہے، جس کے لیے ہو سکتا ہے کہ آپ کو ماہرین سے براہ راست گھنٹوں گفتگو کرنا پڑے۔ اسی طرح اگر کوئی کام کرتے ہوئے آپ کسی ٹیکنیکل مسئلے میں پھنس گئے ہیں، تو جس طرح کاریگر حضرات یوٹیوب ویڈیو دیکھ کر موبائل یا پنکھا صحیح کر لیتے ہیں، اسی طرح آپ بھی اپنے کام میں سٹیپ بائی سٹیپ اے آئی ٹولز سے لکھ کر یا بول کر یا ویڈیو چیٹ کے ذریعے مدد لے سکتے ہیں۔ ( لیکن اس میں بھی بعض دفعہ اے آئی کے ساتھ گھنٹوں کی مغز ماری سے وہ کام نہیں ہو پاتا جو فن کا ماہر ایک منٹ میں حل کر دیتا ہے)
اے آئی کے منفی اور سطحی استعمال کو بھی ایک مثال سے سمجھ لیں:
مثلا کوئی سوال آیا ہے، جس کے بارے میں آپ کو خود کوئی معلومات نہیں، لیکن آپ اسے اے آئی کو دیتے ہیں، وہ آپ کو ایک لمبی چوڑی تحریر لکھ دیتا ہے، جس میں اپنی طرف سے حوالوں کا اضافہ، اقتباسات بنا کر لگا دیتا ہے، جن کا سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا، یا پھر ایسے موقف کو معتبر بنا کر پیش کر دیتا ہے جو یا تو شاذ ہے یا حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں، اور بعض دفعہ برعکس بھی ہوتا ہے کہ معتبر رائے کو منفی پیرائے میں ذکر کر دیتا ہے، لیکن چونکہ آپ خود اس موضوع/ فن کو جانتے نہیں، لہذا ہوبہو اسے آگے کاپی پیسٹ کر دیتے ہیں، جو کہ بالکل منفی اور غلط رویہ ہے، لیکن افسوس کے ساتھ نوجوانوں اور عوام الناس میں یہ سلسلہ خطرناک حد تک رائج ہے۔
آخر میں عرض کروں گا کہ اے آئی عصر حاضر کی بہت بڑی سہولت ہے، اس کی خوبیوں سے مستفید اور خامیوں سے بچنے کے لیے ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا، اگر ہم اپنے سسٹمز خود ٹرین کر لیں تو اس کے مثبت پہلو مزید نمایاں اور منفی پہلؤوں پر مزید کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ