سوال
میری اولاد نہیں ہے، ہم نے ایک بچی لے کر پالی ہے، بچی جب جوان ہوئی تو اس کے میرے شوہر کے حوالے سے پردے وغیرہ کے مسائل نہ ہوں، میں نے ڈاکٹر سے دوائی لے کر اپنے دودھ کے پانچ قطرے نکال کر اس کو پلائے تھے، تاکہ یہ بچی میرے شوہر کی رضاعی بیٹی بن جائے، لیکن ہمیں بعد میں کسی نے بتایا کہ یہ طریقہ کار ٹھیک نہیں ہے۔
اس وقت وہ بچی چھے سال کی ہو رہی ہے، برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ ہم اس حوالے سے کیا کریں؟ میرے شوہر کی شادی شدہ بھتیجی ہے، کیا اس کا دودھ پلا کر بچی میرے شوہر کی محرم بن سکتی ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
دودھ کے پانچ قطرے پلانے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی، یہ سوچ اور معیار غلط ہے۔
حرمتِ رضاعت کے ثبوت کے لیے دو شرائط کا ہونا ضروری ہے۔
1: دودھ مدتِ رضاعت یعنی دو سال کی عمر کے اندر اندر پیا گیا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
“إنما الرضاعة من المجاعة”. [صحيح البخاری:2647]
’’رضاعت بھوک سے ہے ‘‘۔
یعنی رضاعت اسی عمر میں ثابت ہوتی ہے، جب وہ دودھ براہ راست بچے کی غذا بنتا ہو، او ر اس کی بھوک مٹاتا ہو۔ ایک اور روایت میں ہے:
“لا رضاع إلا في الحولين”. [موطا مالك:1290 ، سنن الدارقطني:4/174 ]
’’رضاعت صرف دو سال کی عمر میں ثابت ہوتی ہے‘‘۔
جبکہ رضاعتِ کبیر ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے، مذکورہ احادیث کی روشنی میں ہمارا رجحان اس کے عدمِ ثبوت کا ہے، ہاں بعض خاص حالات میں اس کا اعتبار کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے عمومی اصول بنانا درست نہیں ہے۔
2: بچے نے کم ازکم پانچ دفعہ سیر ہوکر دودھ پیا ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
“كان فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات يحرمن، ثم نسخن بخمس معلومات، فتوفي النبي – صلى الله عليه وسلم – والأمر على ذلك”. [صحیح مسلم:1452]
’’شروع میں دس رضاعتیں حرام کرتی تھیں، پھر پانچ رضاعتوں سے حرمت کا حکم نازل ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو یہی فیصلہ تھا‘‘۔
ایک اور حدیث میں ہے:
“لا تحرم المصة ولا المصتان”.[صحيح مسلم:1451]
’’ایک دو دفعہ دوددھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی‘‘۔
پانچ دفعہ شمار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ وہ دودھ پینا شروع کرے، اور پھر اپنی مرضی سے دودھ پینا چھوڑ دے، تو یہ ایک مرتبہ شمار ہوگی، پیتے پیتے اگر وہ کھانسی وغیرہ کی وجہ سے پستان منہ سے نکال کر دوبارہ شروع کرے تو پھر بھی وہ ایک دفعہ ہی شمار ہوگی۔
جمہور اہلِ علم کے نزدیک رضاعتِ کبیر مؤثر اور ثابت نہیں ہے، یعنی دو سال سے زائد عمر کے بچے کو دودھ پلانے سے وہ رضاعی بیٹا یا محرم نہیں بنتا۔
البتہ بعض دیگر اہلِ علم اور صحابہ کرام، جیسے حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اور اسی طرح امام ابن حزم، امام عطاء بن ابی رباح، امام لیث بن سعد اور کئی محققین جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ وغیرھم کے نزدیک ضرورت اور مجبوری کی حالت میں رضاعتِ کبیر مؤثر ہوتی ہے۔ انکا استدلال حدیثِ سالم سے ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہلہ بنت سہیل کو اجازت دی تھی، کہ وہ سالم مولی أبی حذیفہ کو دودھ پلاکر محرم بنالیں، حالانکہ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
“أَرْضِعِيهِ تَحْرُمِي عَلَيْهِ”. [صحیح مسلم: 1453]
’’تم اسے دودھ پلا دو، اس پر حرام ہو جاؤ گی‘‘۔
چونکہ مذکورہ صورت حال بھی خاص ہے اور حضرت سالم رضی اللہ عنہ والی حالت سے کچھ نہ کچھ مطابقت رکھتی ہے، اس لیے اگر آپ اس بچی کو محرم بنانا چاہتے ہیں تو اپنی اس بھتیجی وغیرہ کا پانچ مرتبہ دودھ اس کو پلا دیں، پلائیں بھی اس طرح کہ وہ سیر ہو کر پی لے، تو وہ آپ کے شوہر کے لیے محرم بن جائے گی۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ