سوال (5419)
14 اگست کو روزہ رکھنا دلیل دینا عاشورہ کے روزہ کی اور آٹھ رکعات نوافل ادا کرنا یوم فتح مکہ سے دلیل لیتے ہوئے۔ کیا یہ سب درست ہے۔ اگر ہاں تو فتح مکہ کے بعد وہ دن کتنی بار آیا کیا کسی صحابی،تابعی،تبع تابعی، اسلاف نے یہ اعمال کئے؟ رہنمائی فرمائیں۔ بارک اللہ فیک
جواب
یوم عاشورہ کا روزہ تو سنت سے ثابت ہے اور دین مکمل ہو چکا ہے اب اس طرح کے روزہ کی کوئی شرعی حیثیت نہیں سوائے بدعت کے کیا کہا جا سکتا ہے۔
اسی طرح چودہ اگست پہ کوئی نوافل ادا کرنا بھی بدعت ہی ہو گا۔
فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ
سائل: شیخ محترم:
فنحن أحق وأولى بموسى منكم”
( وہ بھی آزاد ہوئے تھے فرعون سے)
اس علت پر قیاس کرتے ہیں؟
جواب: لیکن دین مکمل ہو چکا ہے۔ اب کوئی بھی دن کسی بھی طرح کی عبادت کے لیے مقرر نہیں کیا جا سکتا۔
فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ
اس میں دو باتیں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ان دلائل سے دو باتیں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے دونوں باتیں انکی دلیلیں اور اس پہ میرا جواب مندرجہ ذیل ہے۔
1۔ پہلی یہ بات ثابت کی گئی کہ خوشی کے موقع پہ اسی دن شکرانے کے طور پہ روزہ رکھنا یا نوافل پڑنا جائز ہے
اسکے لئے پہلی دلیل عاشورہ کے روزہ کی اور دوسری فتح مکہ پہ نوافل پڑھننے کی دی گئی ہے۔
اس سلسلے میں عرض ہے کہ شکرانے کے طور پہ سجدہ شکر ادا کرنے کی تو واضح نص موجود ہے البتہ روزہ یا نوافل پڑھنے میں اختلاف ہے اور اسکی دلیل کو صحیح قول کے مطابق مسلمانوں کی فتح کے ساتھ خاص کیا گیا ہے کہ ہمیں فتح نصیب ہو تو نوافل بھی پڑھے جا سکتے ہیں عمومی خوشی کے لئے یہ درست نہیں ہے یہی فتوی سعودی علما کا ہے۔
لیکن پھر بھی مخالف موقف کو لیتے ہوئے اگر ہم مان لیں کہ شکرانے کے طور پہ نوافل وغیرہ کا اہتمام کیا جا سکتا ہے تو یہ صرف اسی دن کے ساتھ خاص ہو گا یعنی جس دن پاکستان بنا تھا اس دن خوشی میں ایسا کام کر لیا جاتا تو درست ہوتا مگر مذکورہ سوال میں ایسا نہیں ہے۔
2۔ دوسری یہ بات کہ ان نوافل یا روزوں کو پھر ہر سال دہرایا بھی جا سکتا ہے۔
اسکے لئے دلیل عاشورہ کے روزہ کی دی گئی ہے نبیﷺ نے یہ کہتے ہوئے روزے کو ہر سال دہرانے کا فرمایا کہ: وانا احق بموسی منکم، اس سلسلے میں پہلے کچھ تمہیدا سمجھاتا ہوں۔
امت محمدیہ میں کچھ چیزوں پہ پچھلی امتوں سے زیادہ زور دیا گیا مثلا حفظ پہ یا بدعت وغیرہ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ پہلی امتوں میں جب کلام اللہ تبدیل کر دیا جاتا تو نیا نبی آ کر اسکی تصحیح یا تجدید کر دیتا اسی طرح بدعات کی وجہ سے جو دین تبدیل ہوتا اسکی بھی تصحیح یا تجدید ہو جاتی لیکن نبیوں کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد یہ کلام اللہ کے حفظ اور بدعت کی ممانعت پہ بہت زور دیا گیا تاکہ یہ خطرات نہ رہیں کیونکہ ان کو ختم کرنے کے لئے اب نبی نے نہیں آنا تھا۔
اب یاد رکھیں کہ عام فطری لحاظ سے یہ بات درست تھی کہ کسی اللہ کی طرف سے خوشی ملنے پہ اسکا شکر ادا کیا جائے چاہے نوافل سے یا روزوں وغیرہ سے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی فطری معاملہ تھا کہ چونکہ نبوت کے سلسلے کے خاتمے کے بعد اس طرح لوگوں کو اپنی مرضی پہ چھوڑ دیا جاتا کہ وہ جس طرح جس وقت دین میں کوئی خوشی کرنا چاہیں وہ کر لیں تو پھر دین بدلتے بدلتے کہیں سے کہیں پہنچ جاتا پس اس لئے پھر دین کے معاملات میں خصوصا عبادت کے معاملات میں تو قطعا یہ منع کر دیا گیا کہ چاہے فطری طور پہ تمھیں جو مرضی چیز درست معلوم ہو رہی ہو لیکن شرعی لحاظ سے وہ بدعت ہی ہو گی اگر اس پہ اللہ و رسول ﷺ کا حکم نہ ہو گا
اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر ہم اس طرح کی اجازت دے دیں کہ ہر کوئی شکرانے کے لئے اپنی مرضی سے کچھ بھی کر سکتا ہے تو اس سے جو راستے کھلیں گے وہ پھر بند نہیں ہوں گے کیونکہ پھر کوئی کہے گا کہ میں چار کی بجائے پانچ رکعتیں پڑھوں کا میں زیادہ شکرانہ ادا کروں گا کوئی کہے گا میں عید کو بھی روزہ رکھوں گا میں زیادہ شکر کرنا چاہتا ہوں کوئی کہے گا کہ میں افطاری کے بعد بھی روزہ نہیں کھولوں گا تو یاد رکھیں روزہ کا مقصد بھوکا رکھنا نہیں بلکہ جب اللہ نے کہا کہ بھوکے رہو تو بھوکے رہنا ہی شکر ہے اور جب افطاری کے وقت شریعت نے کہ دیا کہ اب بھوکے نہیں رہنا تو اس وقت بھوکے رہنا شکر نہیں بلکہ ناشکری اور نافرمانی ہو گی پس یہی حال اوپر بدعات کا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ