سوال
ایک شخص ایک کمپنی میں نوکری کرتا ہے، اس نے وہاں چوری کی، لیکن جب ایڈمن ڈیپارٹمنٹ کے ایک فرد نے اسے پکڑا تو اس نے ایک لاکھ روپے رشوت دے کر اپنی نوکری بچا لی۔ کیونکہ اگر معاملہ HR تک پہنچتا تو کمپنی اسے نوکری سے نکال دیتی۔
اب سوال یہ ہے کہ جو تنخواہ وہ اب وہاں کام کرکے کما رہا ہے، کیا وہ حلال ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
یہ شخص دو بڑے گناہوں کا ارتکاب کرچکا ہے:
- چوری: جو کہ شرعاً حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔
- رشوت دینا: جو کہ حدیث نبوی ﷺ کے مطابق سخت حرام ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ فرماتے ہیں:
“لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ”. [سنن الترمذی: 1337]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔
چوری اور رشوت کے بعد جو وہ تنخواہ حاصل کر رہا ہے، اس کا حکم درج ذیل ہے:
اگر یہ شخص اپنی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق نوکری پر پہلے سے ہی مقرر تھا، اور اب اپنے کام کو پوری امانت داری اور دیانت کے ساتھ انجام دے رہا ہے، تو اس کی موجودہ تنخواہ کو حرام نہیں کہا جا سکتا۔
لیکن اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے پچھلے گناہوں پر سچی توبہ کرے، آئندہ ایسے کسی بھی حرام عمل سے بچنے کا عہد کرے، اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے۔
جہاں تک چوری کی گئی رقم کا تعلق ہے، تو وہ کمپنی کی امانت ہے اور اسے ہر حال میں لوٹانا لازم ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
“إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ”. [صحیح مسلم: 2581]
’’میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) فلاں کو گالی دی ہو گی، فلاں پر بہتان لگایا ہوگا، اس کا مال کھایا ہو گا، اس کا خون بہایا ہو گا اور اس کو مارا ہو گا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈال دیا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔
اگر یہ شخص اپنی چوری ظاہر نہیں کرنا چاہتا تو کسی بھی طریقے سے وہ رقم کمپنی کے اکاؤنٹ میں واپس جمع کروا دے یا کسی اور صورت میں کمپنی کو لوٹا دے، تاکہ آخرت میں اس پر کوئی بوجھ باقی نہ رہے۔
لہذا اس کی موجودہ تنخواہ، اگر وہ دیانت داری سے کام کر رہا ہے، تو حلال ہے۔
لیکن اس پر چوری اور رشوت جیسے گناہوں کی معافی اور چرائی گئی رقم کی واپسی ضروری ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ