سوال (2351)
اگر چھوٹے بچے کے بال سفید ہوجائیں تو ان کو کالا کیا جا سکتا ہے؟
جواب
بالوں کو سیاہ کرنے سے بالصراحت ممانعت آئی ہے، بچہ ہو یا جوان ، سیاہ خضاب نہیں کر سکتا ہے، اس کے علاوہ جو رنگ چاہے، اس کے ساتھ بالوں کو رنگ لے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
اگر کسی کے سر یا داڑھی کے بال سفید ہو جائیں تو بال رنگنا مستحب ہے۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
“إن اليهود ، والنصارى لا يصبغون فخالفوهم” [صحیح مسلم: 5510]
“بلاشبہ یہودی اور عیسائی اپنے بالوں کو نہیں رنگتے تم ان کی مخالفت کرو۔”
لیکن بال سیاہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“غَيِّرُوا هَذَا بِشَيْءٍ وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ” [صحیح مسلم، رقم: 5509]
بال سیاہ کرنا منع ہے، اسلیے سیاہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، چھوٹی عمر میں سفید ہو گئے ہوں یا بڑی عمر میں سیاہ کرنے سے بالکل بچناچاہیے، اس کے علاوہ سرخ، زرد وغیرہ رنگ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ
ہمیں جو ممانعت کی علت وسبب معلوم ہوتا ہے، وہ ہے عدم جوانی کے باوجود جوان بننے کی کوشش کرنا اور اسے ظاہر کرنا رہا بچپن میں کسی بیماری اور خرابی کے سبب بالوں کا سفید ہو جانا کہ ان کی سفیدی غالب ہو تو اس حالت میں انہیں سیاہ خضاب کے ساتھ رنگنے میں کوئی حرج نہیں ہو گی جیسے سونا پہننا مرد کے لیے حرام مگر سونے کی ناک،یا دانت لگوانا جائز ہے اسی طرح خالص ریشم پہننا مرد پر حرام مگر جوئیں یا خارش پڑھ جائے تو تب پہننا بطورِ علاج کے جائز ہے یہ اس عمومی قاعدہ واصول سے خارج ہے استثنائی صورت میں یا دوسری صورت میں ایسے لڑکے ڈارک براؤن کلر لگا لیا کریں۔
اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ جوان بہنوں کے شادی سے قبل ہی اکثر بال سفید ہو جاتے ہیں تو اگر وہ خضاب نہیں لگائیں ویسے ہی سفید رہنیں دیں تو ان کے رشتے ہونے میں ابھی خاصی پریشانی بنتی ہے تو اس صورت بھی وہ اپنے بال رنگ سکتی ہے۔
یاد رکھیں بڑی عمر کے افراد کے لیے سفید بالوں کو سرخ خضاب و مہندی کے ساتھ رنگنا مستحب ہے اور نہ رنگنا افضل ہے۔
چند ایک تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
یہ میرے علم وتحقیق کے مطابق ثابت ہیں:
ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﻣﺼﻔﻰ، ﻭﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ( هو الحمصي ثقة على الراجح)، ﻗﺎﻻ: ﺛﻨﺎ ﺑﻘﻴﺔ، ﻋﻦ ﺑﺤﻴﺮ، ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪاﻥ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ ﻋﻤﺮ، ﺃﻧﻪ ﻋﺮﺿﺖ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﻮﻻﺓ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﺼﺒﻎ ﻟﺤﻴﺘﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺎ ﺃﺭﻳﺪ ﺃﻥ ﻳﻄﻔﺊ ﻧﻮﺭﻱ ﻛﻤﺎ ﺃﻃﻔﺄ ﻓﻼﻥ ﻧﻮﺭﻩ
[الآحاد والمثاني : 76 سنده حسن لذاته]
بقیہ کی روایت کب اور کس سے ہو تو قبول کی جائے گی اس کی تفصیل ائمہ محدثین نے کر رکھی ہے۔
تفصیل ہمارے مضمون میں ہے۔
بقیہ عن بحیر روایت:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻲ ﻳﻘﻮﻝ: ﺑﻘﻴﺔ ﺇﺫا ﺣﺪﺙ ﻋﻦ ﻗﻮﻡ ﻟﻴﺴﻮا ﺑﻤﻌﺮﻭﻓﻴﻦ ﻓﻼ ﺗﻘﺒﻠﻮﻩ، ﻭﺇﺫا ﺣﺪﺙ ﺑﻘﻴﺔ ﻋﻦ اﻟﻤﻌﺮﻭﻓﻴﻦ، ﻣﺜﻞ ﺑﺤﻴﺮ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﻭﻏﻴﺮﻩ ﻗﺒﻞ
[الضعفاء الكبير للعقيلى: 1/ 162 سنده صحيح]
ﻗﻠﺖ ﻷﺣﻤﺪ ﺑﺤﻴﺮ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﻗﺎﻝ ﺛﻘﺔ ﻭﺯﻋﻤﻮا ﺃﻥ ﺷﻌﺒﺔ ﻗﺎﻝ ﻟﺒﻘﻴﺔ اﻛﺘﺐ ﺇﻟﻲ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﺑﺤﻴﺮ ﻗﺎﻝ ﺃﺣﻤﺪ ﻛﺎﻥ ﻳﻌﺠﺒﻪ اﻹﺳﻨﺎﺩ
[سؤالات أبى داود: 287]
بحیرہ کی خالد بن معدان سے روایت أصح ہوتی ہے
امام أثرم نے کہا:
ﻗﻠﺖ ﻷﺑﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ: ﺃﻳﻤﺎ ﺃﺻﺢ ﺣﺪﻳﺜﺎ ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪاﻥ، ﺛﻮﺭ ﺃﻭ ﺑﺤﻴﺮ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ؟ ﻓﻘﺪﻡ ﺑﺤﻴﺮا ﻋﻠﻴﻪ
[سؤالات الأثرم: 71 ،الجرح والتعديل :2/ 412]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﻋﻴﺴﻰ ﺑﻦ اﻟﻤﻨﺬﺭ اﻟﺤﻤﺼﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﻴﻮﺓ ﺑﻦ ﺷﺮﻳﺢ اﻟﺤﻤﺼﻲ، ﺛﻨﺎ ﺑﻘﻴﺔ ﺑﻦ اﻟﻮﻟﻴﺪ، ﻋﻦ ﺑﺤﻴﺮ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪاﻥ، ﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ اﻟﺴﻠﻤﻲ، ﺃﻥ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻋﺮﺿﺖ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﻮﻻﺓ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﺼﺒﻎ ﻟﺤﻴﺘﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺃﺗﺮﻳﺪ ﺃﻥ ﺗﻄﻔﻲ ﻧﻮﺭﻱ، ﻛﻤﺎ ﺃﻃﻔﺄ ﻓﻼﻥ ﻧﻮﺭﻩ
[المعجم الكبير للطبراني : 56] موسی بن عیسی بن المنذر ضعیف راوی ہے مگر سابقہ سند کے سبب۔ یہ بھی حسن ہے۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺩﺭﻳﺲ، ﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ، ﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺮ، ﻧﺎ ﺛﺎﺑﺖ ﺑﻦ ﻋﺠﻼﻥ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﻋﺎﻣﺮ، ﻳﻘﻮﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ اﻟﺼﺪﻳﻖ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻳﻐﻴﺮ ﺑﺎﻟﺤﻨﺎء ﻭاﻟﻜﺘﻢ، ﻭﺭﺃﻳﺖ ﻋﻤﺮ ﻻ ﻳﻐﻴﺮ ﺷﻴﺌﺎ ﺑﺸﻲء
[الآحاد والمثاني: 79 سنده لا بأس به]
ابو عامر سلیم بن عامر کےبارے امام ابو زرعہ الرازی نے کہا:
ﺳﻠﻴﻢ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺻﺎﻟﺢ ﺃﺩﺭﻙ اﻟﺠﺎﻫﻠﻴﺔ ﻏﻴﺮ ﺃﻧﻪ ﻟﻢ ﻳﺼﺤﺐ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻫﺎﺟﺮ ﻓﻲ ﻋﻬﺪ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ
[الجرح والتعدیل :4/ 211]
امام ابن مندہ نے کہا:
ﻭﺳﻠﻴﻢ ﺃﺣﺪ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﻓﻲ اﻟﺸﺎﻣﻴﻴﻦ، ﺃﺩﺭﻙ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ اﻟﺼﺪﻳﻖ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ
[الإيمان لابن منده: 2/ 873]
ابن مندہ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ابو عامر سلیم تابعی کی توثیق کی ہے
یہاں اگر توثیق اسی ابو عامر کے بارے ہے تو بہتر مگر اگے جن تلامذہ کا ذکر کیا ہے وہ الخبائری سے روایت کرتے ہیں تو یا تو ان پر راوی کے تعین کرنے میں خطا ہو گئ یا یہ اسے ایک ہی خیال کرتے ہیں والله أعلم بالصواب
امام یعقوب بن سفیان الفسوی نے انہیں
ﻭﻫﺆﻻء اﻟﻄﺒﻘﺔ اﻟﻌﻠﻴﺎ ﻣﻦ ﺗﺎﺑﻌﻲ ﺃﻫﻞ اﻟﺸﺎﻡ کے تحت ذکر کیا ہے
کہا:
ومنهم سليم أبو عامر
[المعرفة والتاريخ :2/ 307]
[ابن حبان نے الثقات: 3169] میں ذکر کیا
امام بخاری نے کہا:
ﺳﻤﻊ ﻋﻤﺮ، ﻭﻋﺜﻤﺎﻥ.
ﻳﻌﺪ ﻓﻲ اﻟﺸﺎﻣﻴﻴﻦ.
ﻗﺎﻝ ﻟﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻬﺮاﻥ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺴﻜﻴﻦ اﻟﺠﺮﺟﺎﻧﻲ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺛﺎﺑﺖ ﺑﻦ ﻋﺠﻼﻥ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺎﻣﺮ، ﻭﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺃﺧﺪﻣﻪ ﻋﻤﺎﺭ ﺑﻦ ﻳﺎﺳﺮ، ﻭﻛﺎﻥ ﻣﻦ اﻟﺨﻤﺲ، ﻣﻤﻦ ﺃﻓﺎء اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻰ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ اﻟﻮﻟﻴﺪ ﻓﻲ ﻓﻲء ﺣﺎﺿﺮ ﻗﻨﺴﺮﻳﻦ، ﻭﺷﻬﺪ ﻓﺘﺢ ﺩﻣﺸﻖ ﻭاﻟﻘﺎﺩﺳﻴﺔ ﻓﻲ ﺳﻔﺮﺗﻪ ﺗﻠﻚ، ﻭﻗﺪﻡ اﻟﻤﺪﻳﻨﺔ ﻭﻫﻮ ﻓﻲ اﻟﺨﻤﺲ، ﻓﺼﻠﻰ ﻣﻊ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﺗﺴﻌﺔ ﺃﺷﻬﺮ
[التاريخ الكبير للبخارى:4/ 126]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﺳﻬﻞ، ﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺮ، ﺛﻨﺎ ﺛﺎﺑﺖ ﺑﻦ ﻋﺠﻼﻥ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﻋﺎﻣﺮ ﺳﻠﻴﻢ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ، ﻳﻘﻮﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﻋﻤﺮ ﻻ ﻳﻐﻴﺮ ﻣﻦ ﻟﺤﻴﺘﻪ ﺷﻴﺌﺎ
[المعجم الكبير للطبراني :(57)سنده لا بأس به]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﺳﻬﻞ، ﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺮ، ﻋﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﺑﻦ ﻋﺠﻼﻥ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺳﻠﻴﻢ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ، ﻳﻘﻮﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ اﻟﺼﺪﻳﻖ ﻳﻐﻴﺮ ﺑﺎﻟﺤﻨﺎء ﻭاﻟﻜﺘﻢ، ﻭﺭﺃﻳﺖ ﻋﻤﺮ ﻻ ﻳﻐﻴﺮ ﺑﺸﻲء، ﻭﻗﺎﻝ ﻋﻤﺮ: ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ ﻣﻦ ﺷﺎﺏ ﺷﻴﺒﺔ ﻓﻲ اﻹﺳﻼﻡ ﻓﻬﻲ ﻧﻮﺭ ﻟﻪ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﻴﺎﻣﺔ ﻓﻤﺎ ﺃﺣﺐ ﺃﻥ ﺃﻏﻴﺮ ﻧﻮﺭﻱ
[مسند الشامیین: 2259]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ، ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻳﺰﻳﺪ اﻟﻘﺮاﻃﻴﺴﻲ، ﺛﻨﺎ ﺃﺳﺪ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ، ﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺳﺎﻟﻢ اﻟﻘﺪاﺡ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﺑﻦ ﺟﺒﻴﺮ ﺑﻦ ﻣﻄﻌﻢ، ﻗﺎﻝ: ﻟﻢ ﻳﻐﻴﺮ ﻋﻤﺮ ﺣﺘﻰ ﻣﺎﺕ
[معرفة الصحابة لأبى نعيم الأصبهاني : 179] ﺫﻛﺮ ﻣﻦ ﻗﺎﻝ: ﻟﻢ ﻳﺨﻀﺐ سنده حسن لذاته سعيد بن سالم القداح صدوق،حسن الحديث راوی ہیں
اس بارے سب سے مناسب فیصلہ امام ابن عدی کا ہے دیکھیے الکامل لابن عدی میں
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ