سوال (6092)
مشائخ ایک شخص کسی کمپنی میں منیجر ہے، اب وہ ایک بندے کو اس کمپنی میں جاب دلواتا ہے اس شرط پے کہ وہ ہر ماہ اسے دو سو ریال دے گا اور بندہ بھی دینے پے راضی ہے کیا یہ درست ہے؟
جواب
دو سو ریال کس بنیاد پر لے رہا ہے کہ اس نے اس کو نوکری دلائی ہے، ہماری معلومات کے مطابق یہ جائز نہیں ہے، نوکری لینا ایک قسم کا تعاون ہے، اس کا اجر آخرت میں اللہ تعالیٰ دیتا ہے، اس کا معاوضہ دنیا میں نہیں ملتا، لہذا یہ درست نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
دیکھیں عمومی طور پہ کچھ لوگوں نے ایسی اکیڈمی بنا رکھی ہوتی ہیں جو لوگوں کو ٹیوشن ڈھونڈ کر دیتے ہیں اسی طرح کچھ لوگوں کو رینٹ پہ مکان ڈھونڈ کر دیتے ہیں پس یہ سب کمیشن یا اجرت کچھ بنیادی شرائط کے تحت لے سکتے ہیں (یہ شرائط بعد میں بیان کرتا ہوں)
اب ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان سب نے پہلے محنت کر رکھی ہوتی ہے یعنی خود لوگوں سے رابطہ کر کے ٹیوشن ڈھونڈ رکھی ہوتی ہے یا مکان ڈھونڈ رکھے ہوتے ہیں انکا کاروبار ہی یہیں ہوتا ہے البتہ اگر انہوں نے یہ محنت نہ کر رکھی ہو بلکہ ویسے ہی کسی کو کسی مکان کے خالی ہونے کا علم ہو اور مالک مکان سے اس کا تعلق ہو اور کسی کو مکان ضرورت ہو تو وہ اسکو بغیر محنت کے وہ مکان یا ٹیوشن دلوا سکتا ہے اور یہاں بھی کوئی ضرورت مند ہے تو وہ چاہے تو انہیں بنیادی شرائط کے تحت کچھ جائز کمیشن لے سکتا ہے کیونکہ کمیشن لینے کے لئے یہ شرط شریعت میں نہیں کہ آپ کا کوئی خرچہ آیا ہو یا آپ کی کوئی محنت لگی ہو مثلا ہمیں کوئی چیز فری میں ہدیہ میں ملی ہو تو ہم اسکو بھی بیچ سکتے ہیں البتہ یہاں افضل یہی ہے کہ بغیر کمیشن کے ہی اس سے تعاون کیا جائے کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ من یشفع شفاعۃ حسنۃ یکن لہ نصیب منھا کہ ایسی صورت میں آپ کو اجر ملے گا اور اللہ بہترین چیزوں سے نوازے گا۔
ہاں مذکورہ سوال میں جو مسئلہ ہے وہ ان بنیادی شرائط کا ہے کہ جو مذکورہ صورت میں عموما پوری نہیں کی جاتی ہیں ۔مثلا آپ جس طرح ٹیوشن دلوا رہے ہیں اس میں کسی حقدار کا حق نہ مارا جا رہا ہو یعنی آپ کا بندہ کم محنتی ہو دوسرا زیادہ محنتی ہو اور آپ اپنے بندے کو ٹیوشن دلوا رہے ہوں یا نوکری دلوا رہے ہوں۔
اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ کسی کی وکالت میں خیانت نہ کی جا رہی ہو مثلا جس کمپنی میں آپ ملازمت دلوا رہے ہیں آپ اس کمپنی کے وکیل ہوں (چاہے اعلانیہ نہ بھی ہو) تو آپ نے اپنی وکالت میں خیانت نہیں کرنی بلکہ موکل کو بتانا ہے کہ آپ اس پہ اتنی کمیشن لیں گے ہاں کمپنی کے مالک کے ساتھ آپ کا کوئی معاہدہ نہیں آپ ویسے ہی کسی کی جائز سفارش کرتے ہیں تو افضل اور اولی تو یہی ہے کہ بغیر کمیشن کے ہی سفارش کریں ویسے میرے نزدیک رخصت ہونی چاہئے کہ آپ کمیشن لے سکتے ہیں. واللہ اعلم
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
کسی کا کام کرکے کمیشن لی جا سکتی ہے، لیکن یہ کمیشن اس صورت میں ہوگی، جب آپ کا خرچہ ہوا ہو، کسی بھی اعتبار سے خواہ جان کھپی ہو، مال یا وقت خرچ ہوا ہو، بصورت دیگر یہ جائز نہیں ہے، مطلق کمیشن جائز نہیں، کچھ شروط و قیود ہوتی ہیں، اگر خرچ ہوا ہو یا وقت لگا ہو تو ایک دفعہ کمیشن کی اجازت ہے، اس سے زیادہ نہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
جی شیخ محترم میرا علم ناقص ہے راسخ نہیں ہے آپ کی بات ہی درست ہو گی۔ ان شاللہ۔ جزاکم اللہ خیرا
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
ابوامامہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ شَفَعَ لِأَخِيهِ بِشَفَاعَةٍ فَأَهْدَى لَهُ هَدِيَّةً عَلَيْهَا فَقَبِلَهَا، فَقَدْ أَتَى بَابًا عَظِيمًا مِنْ أَبْوَابِ الرِّبَا. [سنن ابي داود: 3541]
«جس نے اپنے کسی بھائی کی کوئی سفارش کی اور اس نے اس سفارش کے بدلے میں سفارش کرنے والے کو کوئی چیز ہدیہ میں دی اور اس نے اسے قبول کرلیا تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے میں داخل ہوگیا»
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: جو لوگ گھروں پر روزانہ دودھ یا اخبار سپلائی کرتے ہیں جب وہ اپنا کام چھوڑتے ہیں یا چینج کرتے ہیں تو کسی دوسرے بندے کو اس سپلائی کے ذمہ داری دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک گھر کے اتنے پیسے میں لوں گا(1دفعہ) اور وہ گھر آپ کو دے دوں گا اپ وہاں دودھ سپلائی کریں اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟
جواب: جائز نہیں ہے، کام دلوانے کے عوض ایک مرتبہ کمیشن لینے کی اجازت ہے، اس صورت میں محنت لگی ہے، باقی جائز نہیں ہے، بس لوگوں کو شعور نہیں کہ کسی کیساتھ تعاون کرنا یہ بھی ایک عمل ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ




