کسی بھی شخص کی تحریر یا تخلیقی کام کو اس کی اجازت یا کم از کم مصنف کی طرف منسوب کئے بغیر نقل اور شائع کرنا نہ صرف قانونی اعتبار سے غلط ہے بلکہ اس پر اخلاقی لحاظ سے بھی اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دوسروں کی تحریروں کو ان کی طرف منسوب کئے بغیر یا پھر اپنے نام سے شئیر کرنا ہمارے ہاں معمول کی کاروائی بن چکی ہے۔ اس حوالے سے چند بنیادی باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔
کاپی رائیٹ کے قوانین کا اطلاق ہر اس تخلیقی شے پر ہوتا ہے جسے لٹریری، ڈرامیٹک، آرٹسٹک وغیرہ کہا جاسکتا ہے۔ حتی کہ کمپیوٹر پروگرامز بھی کاپی رائیٹ کے قوانین کے تحت قانونی تحفظ کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ کسی بھی کام کے کاپی رائیٹ کے دائرہ کار میں آنے کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ کام بہت خاص کوالٹی کا حامل ہے یا نہیں۔ کوالٹی کے بجائے کام کی اوریجنلٹی اہم ہے اور اس کے لئے بھی بس اتنا ہی کافی ہے کہ کام کو تخلیق کرنے والے شخص نے اس پر اپنا کچھ ذہن، وقت یا سرمایہ صرف کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمیں کسی کی تحریر بالکل بنیادی یا فضول لگے مگر یہ تحریر اگر لکھنے والے کا اپنے الفاظ میں اظہار ہے تو یہ کاپی رائیٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر آپ پہلے سے دستیاب ڈیٹا مثلا ٹیلی فون ڈائریکٹری کو لے کر اسے کسی نئے فارمیٹ میں ڈھال کر مفید ڈیٹا بیس بنا دیتے ہیں تو اسے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ڈیٹا کی تخلیق آپ کا کام نہیں ہے۔ کاپی رائیٹ کے تحت تحفظ دیا جائے گا۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ کاپی رائیٹ کا اطلاق آئیڈیا کے بجائے اظہار پر ہوتا ہے۔ اس فرق کو کاپی رائیٹ کے قانون کی زبان میں Idea-Expression Dichotomy کہا جاتا ہے۔ اس کا سادہ الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ کاپی رائیٹ کے قوانین اسی وقت حرکت میں آتے ہیں جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے اظہار (یعنی الفاظ و بیان) کو محض کاپی کر لے اور خود اسے شائع کرنا شروع کر دے۔ اگر آپ کسی کتاب یا ناول کے مرکزی خیال کو پڑھ کر اسی مرکزی خیال کے اردگرد خود ایک ناول لکھ دیتے ہیں تو یہ کاپی رائیٹ کے قوانین کی خلاف نہیں ہوگی۔ کسی کے خیال یا آئیڈیا کو چوری کرنا پلیجرازم کے زمرے میں تو آتا ہے (اس پر آگے چل کر مزید بات کریں گے) مگر محض کسی کے خیال کو استعمال کرنے سے کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی نہیں بنتی۔ اس بارے میں مزید کچھ تکنیکی تفصیلات ہیں جن کا احاطہ اس پوسٹ میں ممکن نہیں ہے۔
کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی اس وقت بھی ہوتی ہے اگر آپ کسی شخص کے کام کو اس کے نام کے ساتھ مگر اس کی منظوری کے بغیر شائع کرنا شروع کر دیں۔ کاپی رائیٹ کے قوانین کا بڑا حصہ مصنفین و حقوق کی ملکیت رکھنے والے افراد و اداروں کے معاشی مفادات کے تحفظ سے متعلق ہے۔ سو کاپی رائیٹ کے قانون کے تحت کوئی یہ کہہ کر جان نہیں چھڑوا سکتا کہ جس کام کو شائع کیا جا رہا ہے اس کے اصل مصنف یا ناشر کا نام و انتساب پوری طرح دیا گیا ہے۔ اگر آپ کی طرف سے کسی بھی طریقے سے دوسروں کے کام بغیر اجازت شائع کیا جا رہا ہے تو کاپی رائیٹ کے قوانین کے تحت کاروائی کی جاسکتی ہے۔ یاد رہے کہ شائع کرنے کی اصطلاح کا مفہوم بھی وسیع تر ہے اور اس میں روایتی معنوں میں شائع کرنے یعنی ہارڈ کاپی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے کام کو دستیاب کرنا بھی شامل ہے۔ سو کسی کتاب کی ڈیجیٹل کاپیاں بنا کر اسے وسیع پیمانے کا پھیلانا کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی ہے۔ محدود تعداد میں ایسی کاپیاں تیار کرنے کا جواز موجود ہے کہ جن کام مقصد منافع کمانا نہ ہو اور جن سے کاپی رائیٹ کے مالک کی جائز کاروباری توقعات کا استحصال نہ ہوتا ہو۔

عزیزالرحمٰن