مورل رائیٹس (Moral Rights) کاپی رائیٹ سے جڑے ہوئے ان پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں جن کا براہ راست معاشی فوائد سے تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ایک مصنف کے کام سے وابستہ وہ اخلاقی حقوق ہیں جنہیں مصنف سے کبھی جدا نہیں کیا جا سکتا۔ ان حقوق میں سرفہرست مصنف کا یہ حق ہے کہ اس کے کام (تصنیف، آرٹ کے شہکار وغیرہ) کو صرف اسی کی طرف منسوب کیا جائے۔ کاپی رائیٹ سے مورل رائیٹس کو علیحدہ سے بیان کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ کاپی رائیٹ کا اصل مقصد مصنف یا حق کے مالک کے معاشی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ بسا اوقات کاپی رائیٹ کا مالک اپنے اس حق کو فروخت بھی کر دیتا ہے۔ اس صورت میں مصنف کے پاس کاپی رائیٹ تو نہیں رہتا مگر اس کے مورل رائیٹس بعد از فروخت بھی اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔
اگر ایک شخص یا ادارہ رقم ادا کر کے کسی مصنف کے کاپی رائیٹ کو خرید لیتا ہے تو اس کے بعد اب مصنف کے بجائے کاپی رائیٹ کا مالک یہ خریدار بن جاتا ہے۔ مثلا آپ نے ایک ناول لکھا اور اسے کسی ناشر کو مکمل طور پر فروخت کر دیا تو آپ کے کاپی رائیٹ اب اس کام کی حد تک ختم ہو چکے ہیں۔ ناشر اس کام کو چاہے دس بار شائع کرے اور اس سے رقم کمائے، آپ اس رقم کے حقدار نہیں رہیں گے کیونکہ آپ نے شروع میں ہی اس کام کو مکمل طور پر فروخت کر دیا ہے۔ البتہ ناشر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس کام کو اپنی طرف یا کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب کر کے شائع کرے۔ بالفاظ دیگر مصنف کے کاپی رائیٹ کے ختم ہونے کے بعد بھی اس کے مورل رائیٹس باقی رہتے ہیں۔ اس مثال میں آپ کا یہ حق ہمیشہ باقی رہے گا کہ اس کام کو آپ ہی طرف منسوب کیا جائے۔ ظاہر ہے اس انتساب کے نتیجہ میں آپ کو براہ راست کوئی مالی فائدہ تو نہیں مل رہا مگر ایک اخلاقی ضابطے کی پیروی ضرور ہو رہی ہے اور یہی مورل رائیٹس کی بنیاد ہے۔
مورل رائیٹس میں یہ مصنف کا یہ حق بھی شامل ہے کہ اس کے کام کی سالمیت (integrity) کو برقرار رکھا جائے۔ اگر کسی مصنف نے اپنے کاپی رائیٹ کو فروخت بھی کر دیا ہے تو اس کے موجودہ مالک کو یہ حق حاصل نہیں ہے وہ اس کام کو اس انداز میں تبدیل کرے یا اس میں ایسے کمی بیشی کرے جو اس کام کی مجموعی شناخت و سالمیت کو متاثر کر دے۔ چونکہ ایسا کرنے سے بعض قارئین کے ذہن میں یہ احتمال پیدا ہو سکتا ہے کہ دراصل مصنف ہی نے اس انداز میں کام کو لکھا یا تشکیل دیا ہے۔ اس الجھاؤ سے بچنے اور مصنف کی رپوٹیشن کو قائم رکھنے کے لئے مورل رائیٹس کے اس پہلو کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ کاپی رائیٹ کے برعکس مورل رائیٹس کے بارے میں کامن لاء اور سول لاء کی روایات کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ سول لاء کی روایت کے حامل ممالک میں مورل رائیٹس کو ہمیشہ سے بہت سنجیدگی اور اہتمام سے لیا جاتا رہا ہے۔ اس کے برعکس کامن لاء کے ملکوں – امریکہ و برطانیہ – میں تاریخی طور مورل رائیٹس کے بجائے کاپی رائیٹ کے تحفظ پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ گو کہ بین الاقوامی سطح پر انٹیلیکچول پراپرٹی کے قوانین کے معاہدات کے وجود میں آنے سے اس خلیج کو پاٹنے میں مدد ملی ہے اور برن کنونشن (Bern Convention) جیسے معاہدات – جس کا ایک ممبر پاکستان بھی ہے – میں مورل رائیٹس سے متعلقہ دفعات کو شامل کیا گیا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے زیرانتظام ہونے والے انٹیلیکچول پراپرٹی کے سب سے اہم معاہدے ٹرپس ایگریمنٹ (TRIPS Agreement) میں البتہ مورل رائیٹس کو باقاعدہ شامل نہیں کیا گیا کیونکہ یہ معاملہ کاپی رائیٹ کے صرف ان پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہے جن کا تعلق تجارتی امور سے ہے۔ اس معاہدے میں مورل رائیٹس کو شامل کرنے کی مخالفت امریکہ نے بھرپور انداز میں کی تھی۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں مورل رائیٹس کی اہمیت پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔ آن لائن پلیٹ فارمز پر بہت سارا مواد ایسا ہے جس کے مصنفین مالی فائدے کے حصول میں دلچسپی نہیں رکھتے مگر وہ یہ دلچسپی ضرور رکھتے ہیں کہ ان کے کام کو ان ہی کی طرف منسوب کیا جائے۔ نیز اس کام میں کسی قسم کی تبدیلی کی اجازت نہیں دی جاتی یا تبدیلی کو اجازت سے مشروط کیا جاتا ہے۔ آج کل اس کام کے کے لئے کریٹو کامنز (Creative Commons) کے تحت لائسنس دیئے جاتے ہیں جس کی اصل بنیاد مورل رائیٹس ہی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ عام چلن ہے کہ سوشل میڈیا پر دوسروں کی تحریروں کو لوگ اپنے ناموں سے شائع کر دیتے ہیں۔ یہ محض پلیجرم ازم یا سرقہ نہیں ہے بلکہ مصنف کے مورل رائیٹس کی خلاف ورزی بھی ہے۔ بسا اوقات لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے دوسرے کی تحریر کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اپنے نام سے شائع کیا ہے۔ یہ بھی مصنف کے مورل رائیٹس کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس سے مصنف کے کام کی سالمیت متاثر ہوتی ہے۔
اس ضمن میں ایک اہم بات قدیم مصنفین کی کتابوں کی تحقیق اور تخریج سے متعلق ہے۔ کچھ عرصے سے یہ رواج چل پڑا ہے کہ نامور مصنفین کی کتب کو تخریج و تحقیق کے نام پر قطع و برید کر کے شائع کیا جاتا ہے۔ تراث کی کتابوں کی تخریج اور تحقیق اپنی جگہ بہت اہم اور مفید کام ہے مگر اس کو شائع کرتے ہوئے یہ اہتمام کرنے کی ضرورت ہے مصنف کا اصل متن اپنی جگہ پر قائم رہے اور تخریج و تحقیق کو حاشیہ میں مناسب ترتیب کے ساتھ شائع کیا جائے۔ یہ رجحان مورل رائیٹس کی خلاف ورزی ہے کہ اصل مصنف کے متن کو ہی کاٹ کر اس میں سے کچھ چیزوں کو نکال دیا جائے اور باقی کتاب کو شائع کر دیا جائے۔ یاد رہے کہ مورل رائیٹس، کاپی رائیٹ کے برعکس وقت کے ساتھ ختم نہیں ہوتے سو یہ سہولت بھی حاصل نہیں ہے کہ محققین و ناشرین صدیوں پرانے کام کے ساتھ جو مرضی سلوک کریں۔

عزیز الرحمٰن