کاپی رائیٹ کا حق انٹیلیکچول پراپرٹی کی دیگر اقسام کی طرح ہمیشہ کے لئے نہیں قائم رہتا۔ کچھ استثنائی صورتوں اور تفصیلات کو چھوڑ کر کاپی رائیٹ مصنف و حقوق کے مالک کی زندگی کے دوران اور اس بعد پچاس سال تک قائم رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک مصنف زندہ ہے تو اس کی زندگی کے دوران کاپی رائیٹ کا حق باقی رہے گا۔ مصنف کی وفات کے بعد بھی یہ حق مصنف کے ترکہ کے طور پچاس سال تک باقی رہتا ہے۔ مثال کے طور پر امجد اسلام امجد کے انتقال کے بعد ان کے کام سے متعلق کاپی رائیٹس کے حقوق اب ان کے ورثاء کے پاس ہوں گے اور ایسا بعد از وفات پچاس سال تک رہے گا۔ وفات کے پچاس سال کے بعد کاپی رائیٹ کا حق ختم ہو جاتا ہے اور کوئی بھی شخص اس کام کو شائع کر سکتا ہے یا پھر استعمال کی دیگر صورتوں کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غالب کی شاعری اب کاپی رائیٹ کے مرحلے سے گزر چکی ہے کیونکہ غالب کی وفات کو پچاس سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔
یہاں پر دو باتیں ملحوظ خاطر رہنی چاہئیں۔ اول تو یہ کہ مصنف کے کاپی رائیٹ کے حق کے خاتمے کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ کوئی دوسرا شخص اب اس تحریر یا کام کو اپنی طرف منسوب کر کے استعمال کر سکتا ہے۔ مصنف کا انتساب کا حق کاپی رائیٹ کے حق سے علیحدہ بھی وجود رکھتا ہے جسے مورل رائیٹ کہا جاتا ہے۔ اس بارے میں ہم آگے چل کر مزید گفتگو کریں گے۔ کاپی رائیٹ کے حق کے خاتمے کا یہ مطلب ہے کہ مصنف کے نام کے ساتھ اب بلا اجازت اور رائلٹی ادا کئے بغیر آپ اس کام کو شائع کر سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ بسا اوقات مصنف کے کاپی رائیٹ کو فروخت کر دیا جاتا ہے اور کاپی رائیٹ کا حق کسی ناشر کے پاس ہوتا ہے۔ کاپی رائیٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی وہ ناشر اگر خاص ترتیب’ اہتمام’ ڈیزائن وغیرہ سے کسی کتاب کو شائع کرتا ہے تو اس کے متن کا کاپی رائیٹ تو ختم ہو چکا ہے مگر ناشر کا اپنا کاپی رائیٹ اس ترتیب اور ڈیزائن وغیرہ کی وجہ سے وجود میں آ چکا ہوتا ہے۔ سو ایسے کام کو شائع کرتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ صرف متن کا استعمال پبلک ڈومین میں ہے ناں کہ ناشر کے اضافی حقوق بھی!
کاپی رائیٹ کے قانون کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ یہ کسی مصنف کے بنیادی کام کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اس کام کی بنیاد پر کئے جانے بہت سے ثانوی کاموں کے تحفظ کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی مصنف کے تحریر کردہ ناول کی بنیاد پر اگر آپ ڈرامہ یا فلم بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو مصنف کی اجازت درکار ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی کام کا ترجمہ کرنے کا ارادہ ہے تو بھی اجازت درکار ہوگی۔ عموما اس قسم کی اجازت کے لئے مصنف یا کاپی رائیٹ کے حق کے مالک کو رائلٹی کی صورت میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ بعض صورتوں میں مصنفین مالی معاوضہ نہیں طلب کرتے مگر پھر بھی ان کی اجازت قانونی لحاظ سے ضروری ہے۔
کاپی رائیٹ کے حوالے سے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ تحریر کے اختصار یا طوالت اور فارمیٹ وغیرہ سے یہ حق ختم یا کم نہیں ہوتا۔ روایتی طور پر کتابیں’ مسودات’ پینٹنگز’ میوزک کمپوزیشنز’ تصاویر’ پرفارمنگ آرٹ وغیرہ کاپی رائیٹ کے زمرے میں آتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے دور میں فیس بک’ یو ٹیوب’ ٹویٹر اور اس قسم کے دیگر مواد پر کاپی رائیٹ کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر آپ نے کسی صحت افزا مقام کی ویڈیو بنا کر اس کے بارے میں چند تعارفی الفاظ کہے ہیں تو آپ کا یہ کام کاپی رائیٹ کے زمرے میں آ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بے دھڑک دوسروں کی تحریروں اور کام کو بلا اجازت استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عام لوگ اس قسم کے استعمال کو روکنے کے لئے قانونی راستہ بوجوہ اختیار نہیں کرتے مگر قانونی لحاظ سے یہ درست نہیں ہے۔ کسی کی تحریر کو محض منقول لکھ کر آگے چلا دینے سے بھی اس کی گنجائش نہیں نکلی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنے کام کو شئیر کرنے کا آپشن دے رکھا ہے تو یہ اس کی طرف سے اجازت متصور ہوگی اور آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ اس سے دوبارہ پوچھے بغیر اس کام کو اسی شخص کے نام سے شئیر کر سکتے ہیں۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں کسی کام کی کاپی بنانا بہت آسان ہو گیا ہے۔ جب آپ کوئی ڈیجیٹل کتاب یا سافٹ وئیر قیمت ادا کر کے خریدتے ہیں تو آپ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ میں نے اس کام کو خرید لیا ہے سو اب اس کے استعمال یا آگے کسی کو دینے کا حق مجھے حاصل ہے۔ اکثر اوقات یہ خرید و فروخت کا معاملہ ہوتا ہی نہیں بلکہ آپ کو اس کتاب یا سافٹ وئیر کا صرف لائسنس دیا جاتا ہے۔ یہ لائسنس مختلف نوعیت کی پیچیدہ شرائط کے ساتھ دیا گیا ہوتا ہے جنہیں ایک کلک کے ساتھ آپ قبول کر چکے ہوتے ہیں۔ ان شرائط میں یہ شامل ہوتا ہے کہ آپ اس کام کو صرف اپنی ذاتی استعمال میں لائیں گے اور fair use کے اصول کے تحت ہی استعمال کریں گے۔ اس قسم کے کام کی مزید کاپیاں تیار کر کے انہیں آگے پھیلانا قانونی طور پر درست نہیں ہے۔

عزیز الرحمٰن