کرپشن کے خلاف بھی ایک بنیان مرصوص آپریشن چاہیے

پاکستان ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں کرپشن ایک دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ ہے، جو ملکی معیشت، عدالتی نظام، عوامی فلاح اور ریاستی اداروں پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ یہ ایسا ناسور ہے جو نہ صرف معیشت کو کمزور کرتا ہے بلکہ عوامی اعتماد کو بھی متاثر کرتا ہے۔ کرپشن کے خلاف جنگ اسی طرح لڑنے کی ضرورت ہے جیسے ہم انڈیا کے خلاف لڑتے ہیں، متحد ہوکر، پوری توانائیوں کے ساتھ، مکمل فوکسڈ۔ یہ جنگ اس لیے مشکل تر ہے کہ یہ اپنے آپ کے خلاف ہے۔ اندر کے دشمن کے خلاف۔ اس دشمن کے خلاف جو ذاتی مفادات کے لیے قومی وملی مفادات کی سودے بازی کرتے ہیں۔ میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ مال ودولت کے لیے ماں جیسی دھرتی بھی بیچ ڈالتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کا کوئی بھی ادارہ اس سے محفوظ نہیں۔ اس لیے سب سے پہلے گھر کی خبر لینا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے ایسی قانون سازی کرنا اور ایسی سخت سزائیں عائد کرنا ہیں جن سے ملک و قوم کو محفوظ کیا جاسکے۔یہ جنگ اگر جیت لی جائے تو باقی کی جنگیں لڑنا بے حد آسان ہے۔ کرپشن کا مقابلہ ایمان و یقین اور عقیدہ وفکر کی پختگی کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

قرآن مجید واضح طور پر حکم دیا گیا ہے:

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا

“بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کو ادا کرو۔”

نیز کرپشن سے پاک ہونا اہل ایمان کی بنیادی نشانی قرار دی۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ

“اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں۔”

1: نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان عالیشان یقینا ہم سب کے لیے رہنما ہے کہ

’’لا ایمان لمن لا امانۃ لہ‘‘

ایسے شخص کا کوئی ایمان نہیں جو امانت کا پاسدار نہیں۔

نیز کرپشن منافق شخص کی نشانی ہے۔

2: نبی کریم ﷺ نے منافق کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

“جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔”

اس سلسلے میں سنگاپور، روانڈا اور چائنا کی مثالیں یقینا ہمارے لیے رہنما ہیں۔ سنگاپور میں 1960 کے بعد سخت قوانین اور ایماندار قیادت کے ذریعے کرپشن پر قابو پایا گیا۔ روانڈا میں جنگ کے بعد نئے قوانین اور نگرانی کے نظام سے کرپشن کو کافی حد تک کم کیا گیا۔ اور چین کرپشن کے خلاف سخت قوانین کی تشکیل اور نفاذ میں سب پر سبقت لے گیا۔اور اگر یہ کہا جائے کہ چین کی عالمی قوت بننے کی ایک بڑی وجہ اس کا کرپشن کے خلاف جنگ جیتنا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ صدر شی جن پنگ نے 2012 میں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد کرپشن کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا۔

ان کا نعرہ تھا کہ
’’ہم شیر بھی ماریں گے اور مکھیاں بھی‘‘

یعنی چھوٹے بڑے کسی بھی کرپٹ شخص کو نہیں چھوڑیں گے۔ پھر وہی ہوا کہ 2012 سے اب تک کرپشن کے خلاف ایک زبردست جنگ لڑی گئی، جس میں لاکھوں افراد کو سزا دی گئی۔ سینکڑوں اعلیٰ سطحی افسران، وزراء، اور فوجی جرنیلوں کو برطرف یا قید کیا گیا۔ کچھ مشہور لوگ جیسے ژویونگ کانگ Zhou Yongkang سابق سکیورٹی چیف اور بو شیلائی Bo Xilai جیسے رہنماؤں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ “Operation Fox Hunt” اور “Operation Sky Net” کے تحت بیرون ملک فرار کرپٹ افراد کو واپس لا کر مقدمات چلائے گئے۔ قوانین میں ترمیم تو ۱۹۹۷ میں ہی عمل میں آچکی تھی، لیکن تحریک کی صورت ان پر بھرپور عمل بعد میں ہوا۔ فوجداری قوانین میں یہ ترامیم کافی سخت تھیں، حتی کہ ان میں موت تک کی سزا بھی تجویز ہوئی۔ فوجداری قوانی میں آرٹیکل 382–384 کے تحت سرکاری اہلکار کی جانب سے بدعنوانی یا اختیارات کے ناجائز استعمال پر 10 سال سے عمر قید تک کی سزا عائد کی گئی۔ آرٹیکل 385–388 کے تحت رشوت لینے یا دینے والے سرکاری اہلکار کو قید، جرمانہ یا سزائے موت تک ہو سکتی ہے۔

کرپشن سے متعلق عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کا کردار بھی بہت نمایاں ہے۔ حکومتی ونجی ہر دو سطح پرسخت سزاؤں اور مضبوط عدالتی نظام کی بدولت امن و امان اور شفافیت کی صورتحال بہت ہی اطمینان بخش ہے۔

پاکستان میں اگر ہم امن وامان کی صورتحال بہتر کرنا چاہتے ہیں تو عدالتی نظام کو درست کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ حکومتی و عوامی سطح پر کرپشن کے خلاف بے رحمانہ آپریشن وقت کی اہم ترین ضرورت بن گیا ہے۔ اس کے لیے سخت گیر قوانین کی تشکیل اور تنفیذ اولین کام ہے۔ یہ جنگ کسی ایک فرد یا ادارے کو نہیں، بلکہ پوری قوم ، تمام حکومتی اجزاء، سیاست دانوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس، میڈیا پرسنز، اساتذہ و علماء، تجار، ملازمین اور تمام تر افراد کو لڑنا ہے۔ اس جنگ میں کامیابی بلاشبہ تمام امور میں کامیابی و ترقی کا زینہ ثابت ہوگی۔

جواد حیدر

یہ بھی پڑھیں: قرآن میں بیان کی گئی سخت ترین مثال