سوال (3827)
شیخ صاحب سے سوال ہے کہ میرا کاروبار ہے اور بینک میں اکاؤنٹ بنا ہوا ہے، انہوں نے مجھے پی او ایس مشین دی ہوئی ہے جس میں لوگ کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ خریدی گئی اشیاء کی خریداری کرتے ہیں جو کہ بینک اکاؤنٹ میرے اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر تین دن بعد کرتی ہے، ہوتا کچھ اس طرح ہیں کہ کوئی بندہ میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ میرے کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ مجھے رقم دے دو میں اشیاء کی خریداری نہیں کر سکتا ہوں، میں اس کو پی او ایس مشین میں سویپ کر کے اس کو رقم دے دیتا ہوں اور وہ تین فیصد کمیشن مجھے دیتا ہے کیا یہ صورتحال جائز ہے؟
جواب
جس قدر یہ سوال موجود ہے، اس حساب سے یہ سود دیکھائی دیتا ہے، جیسا کہ ایزی پیسہ یا سم پر سود لیتے ہیں تو وہ بڑھا کر کاٹ لیتے ہیں، وہی صورت دیکھائی دی رہی ہے، ہر قرض جو نفعہ کھینچ لے، وہ سود ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
بظاہر سوال کے مطابق آپ نے جو پی او ایس مشین حاصل کی ہے، وہ بینک کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت دی گئی ہے، جو عام طور پر سامان یا خدمات کی فروخت کے لیے استعمال ہوتی ہے، نہ کہ نقد رقم فراہم کرنے کے لیے۔ اگر آپ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں تو یہ قانونی اور شرعی طور پر مشکوک ہوسکتا ہے۔
جب آپ کسی شخص کے کریڈٹ کارڈ کو سویپ کر کے نقد رقم دے رہے ہیں اور اس کے بدلے میں تین فیصد اضافی لے رہے ہیں، تو یہ درحقیقت قرض پر اضافی رقم لینا کہلا سکتا ہے، جو سود (ربا) کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ شریعت میں سود لینا اور دینا دونوں حرام ہیں۔ جیسا کہ شیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ نے بتایا ہے، یہ معاملہ شرعی طور پر ناجائز معلوم ہوتا ہے. کیونکہ اس میں سود (ربا) کا شبہ ہے، بینک کے قواعد کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔ یہ ایک غیر شفاف مالی لین دین ہے جو دھوکہ دہی یا فریب کے زمرے میں آسکتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر اس کی بنیاد بینک جیسے سودی مالیاتی ادارے کی ہے۔
لہذا، آپ کو چاہیے کہ اس عمل سے اجتناب کریں اور اپنے کاروبار کو مکمل طور پر حلال اور شفاف طریقے پر چلائیں تاکہ کسی بھی قسم کی حرام کمائی سے محفوظ رہ سکیں.
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ