سوال (1396)

اگر کریڈٹ کارڈ پر رقم ادھار لی جائے بغیر کسی سودی معاملے کے یعنی جتنی رقم لی اتنی ہی واپس کرنی ہے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

کریڈٹ کارڈ میں بنیادی طور پرآپ کو بیلنس نہ ہونے کی صورت میں قرض دیا جاتا ہے تاکہ آپ اپنی خریداری کر لیں۔
اور قرض کا اصول یہ ہے کہ جتنا قرض دیا گیا ہے، اتنا ہی واپس لینا جائز ہے، اس سے زیادہ لینا جائز نہیں۔
اگر کریڈٹ کارڈ میں کوئی ایسی صورت ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
لیکن عملی طور پر بینک کا یہ اصول نہیں ہے کہ وہ جتنا آپ کو قرض دے اتنا ہی واپس لے لے۔
کبھی آپ نے سنا ہے کہ بینک سے کسی نے قرض لیا ہو اور اس پر سود نہ ہو؟

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سائل :
سود نہیں دینا ہے جو رقم ادھار لی ہے بس وہی دینی ہے۔ ایک بھائی دوسرے کو ادھار دے رہا ہے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ؟
جواب :
اس کا مطلب ہے جو کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادھار دے رہا ہے وہ سودی معاملہ کرے گا.

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سائل :
جی ، لینے والا صرف جتنی رقم ادھار لے گا اتنی ہی واپس دے گا
جواب :
جب معلوم ہے کہ ادھار سود لیکر دیا جائے گا، تو اس سے اجتناب بہتر ہے…!!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

کریڈٹ کارڈ کی رقم جو آپ کو ملتی ہے یہ مشروط ہے۔ مثلا آپ 40000 چالیس قرض لیتے ہیں تو آپ 40 ہی واپس دیتے ہیں ، شرط اس میں جو ہے وہ سود کی شامل ضرور ہے لیکن اس سے بچنا بھی ممکن ہے ، شق یہ ہے کہ آپ کو مثلا 30 روز دیئے جاتے ہیں کہ ان ایام میں آپ لوٹا دیں تو 40 ہزار کے 40 ہی لوٹائے جائیں گے ، اگر 30 روز سے 31 ہوئے تو آپ کو یومیہ جرمانہ ہوگا ، آج کل کچھ جو کریڈٹ کارڈ ہولڈر ہیں وہ لوگ اس شِق سے بخوبی آشنا ہیں ، وہ اب کرتے یہ ہیں کہ رقم کو استعمال تو کرتے ہیں لیکن اسے اس سے پہلے ادا کردیتے ہیں اور اس طرح وہ سود سے بھی بچ جاتے ہیں اور رقم سے مستفید بھی ہوجاتے ہیں ، کچھ اہل علم اس کے جواز کے قائل ہیں ، البتہ اگر اس شق کو دیکھتے ہوئے حرام کا فتوی دیا جائے تو ایسے ہمارے ہاں بینکنگ کا نظام مطلقا حرام ہی ہے اس لحاظ سے تو ان کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وجود ہی خلاف شریعت ہے۔

فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ