جمہور علماء کے نزدیک کرپٹو کرنسی کا حکم

کرپٹو کرنسی جمہور علماء کے نزدیک اور راجح قول کے مطابق ناجائز و حرام ہے:

“اسلام کا نظام تجارت” کانفرنس کی دوسری نشست کے پہلے خطیب شیخ ڈاکٹر سید حسین مدنی حفظہ اللّٰہ نے “کرپٹو کرنسی کی حقیقت اور شرعی حکم” عنوان کے تئیں بہت ہی اہم باتیں پیش کیں جس سے عصر حاضر میں امت مسلمہ کے درمیان پائی جانے والی بہت سے اشکالات کا ازالہ ہوا۔

آپ نے اپنے تمہیدی کلمات میں ذکر کیا کہ عصر حاضر میں جو موضوعات انتہائی پیچیدہ، انتہائی حساس، گرم اور اہم سمجھے جاتے ہیں ان میں سے ایک “کرپٹو کرنسی” بھی ہے اس موضوع کی تکنیکی حقیقت کو سمجھنے اور شرعی حیثیت کو جاننے کے لئے، اس کے افہام وتفہیم کے لئے سن 2009ء سے یعنی گزشتہ پندرہ سالوں سے مسلسل متعدد کتابیں، مقالے اور رسالے لکھے گئے اور دنیا بہر میں اور ملک بھر میں بھی مختلف اجلاس منعقد کئے گئے تاکہ اس پہیلی اور معمے کو سلجھا سکیں کہ اسکی حقیقت اور شرعی حیثیت کیا ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ اور امام ابن رشد رحمہ اللّٰہ نیز ان جسے اہل علم نے اصول فقہ کا ایک متفقہ قاعدہ بیان کیا ہے: الحكم على الشيء فرع عن تصوره” اس عنوان کی ترتیب اس قاعدے کے تحت ہے، آپ نے اپنے اچھوتے انداز میں بیان کیا کہ سب سے پہلے ہمیں اسکی حقیقت جاننی ہے پھر اس کے حکم تک پہنچنا ہے یعنی کسی بھی مجتہد کے لئے کسی مسئلے پر گفتگو کرنے سے پہلے اور اس پر حکم لگانے سے قبل انتہائی ضروری ہے کہ اسکے پاس اس کا مکمل اور صحیح تصور ہو تاکہ وہ صحیح اور درست نتیجے پر پہنچ‌ سکے۔ حق اور حقیقت یہ ہیکہ ماہرین معیشت اور ماہرین ٹیکنالوجی اور ماہرین شریعت کی ایک ایک ٹیم چاہئے جو مل کر اس مسئلے کی چھان بین کرکے متفقہ فیصلہ سنا‌‌ سکیں کیونکہ یہ ایک انتہائی مشکل و پیچیدہ اور اختلافی مسئلہ ہے۔
پھر شیخ محترم نے کرپٹو کرنسی کی تعریف کرتے ہوئے ذکر کیا کہ یہ ایک ذریعہ تبادل یا زر‌ تبادلہ ہے، قدیم زمانے میں “نظام المقایضہ” رائج تھا جسے بارٹر سسٹم کہا جاتا ہے کسی کے پاس چاول ہے اور اسے گیہوں کی ضرورت ہے، کسی کے پاس گیہوں ہے اور اسے چاول کی ضرورت ہے اب دونوں آپس میں مفاہمہ کرتے ہیں اور کچھ چیزوں کا تبادلہ کرتے ہیں اور اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں لیکن یہ سسٹم زیادہ دن تک نہیں چل سکا. کیونکہ جس کو چاول کی ضرورت ہو، ضروری نہیں کہ اسکو گیہوں کی ضرورت ہو اور جس کو گیہوں کی ضرورت ہو‌ اس کے لئے ضروری نہیں کہ اس کے‌ پاس زائد‌ چاول ہو۔ پھر اس کے بعد ایک مرحلہ نظام النقود السلعیہ آتا ہے جسے کمیوڈٹی منی سسٹم کہا جاتا ہے اس کا تصوّر یہ ہے کہ جو چیزیں کثیر الاستعمال ہیں جیسے چاول، نمک‌ اور لوہا وغیرہ، ان‌ چیزوں کو مال کی حیثیت دی گئی اور یہ سسٹم بھی کچھ وقت تک چلتا رہا اس سے کافی حد تک انسانیت کے مسائل حل ہوتے رہے، لیکن چونکہ یہ ایسی چیز ہے کہ حمل و نقل میں دشواریاں پیش آتی ہیں تو بیک سسٹم اور آگے بڑھا جسے نظام النقود المعدنیہ یعنی میکینکل منی سسٹم کا‌ نام دیا گیا یعنی لوگوں کی نظریں سونے اور چاندی پر آکر جم‌ گئیں کہ اسے زر مبادلہ قرار دیا جائے اور اسکے ذریعے ایکسچینج ہوتا رہے، قدیم زمانے میں امن عام نہیں تھا ڈاکوؤں اور لٹیروں کا خدشہ رہتا تھا کہ کبھی بھی چوری ہوجائے، جان‌ کا خطرہ بنا رہتا تھا اسکو لیکر سفر کرنا مشکل تھا اس لئے لوگ سونار کے پاس جانے‌ لگے اپنا‌ سونا‌ اپنی چاندی دینار و درہم جمع کرنے لگے اور اس کے پاس سے رسید لینے لگے تو یہ رسید دوسرے سونار کے پاس بھی ویلیڈ رہتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا گیا لوگوں نے اس رسید کو کاغذی کرنسی یعنی نوٹوں کا درجہ دیا خاص طور پر سترہو صدی عیسوی کی بات ہے سویڈن کے اسٹاک ہوم کی جو برانچ تھی اس نے سب سے پہلے یہ سوناروں کی رسید کو کاغذی کرنسی اور مال کا درجہ دیا، یہاں پر کافی حد‌ تک مسائل ہونے لگے رفتہ رفتہ دنیا میں نوٹ کا رواج چل پڑا اس کے بعد دنیا اور ترقی کرتی گئی کسی آدمی‌ کا دنیا میں ایک جگہ رہنا ضروری نہیں ہے کوئی آدمی سفر کرتا ہے تجارت کے لئے،تعلیم کے لئے، علاج و معالجے کے لئے یا کسی اور غرض سے، دوسرے ملک‌ میں جب جائے گا تو اس کی کرنسی نہیں چلے گی تو اس وقت بینکوں نے ایک نیا سسٹم متعارف کروایا کریڈٹ کارڈ کی شکل میں ڈیبٹ کارڈ کی شکل میں، کارڈ کا سسٹم عمل میں آیا، اب اس کے بعد گزشتہ کچھ سالوں میں فاینانس کے اعتبار سے دنیا نے بحران کا سامنا کیا اور کچھ ممالک کے کچھ قوانین کچھ افراد پر گراں گزرنے لگے اور بہت ساری وجوہات سامنے آنے لگیں شاطر ذہن‌ افراد نے کرپٹو کرنسی کو ایجاد کیا۔
شیخ‌ محترم نے کرپٹو کرنسی کی اس تاریخی پس منظر کے بعد ذکر کیا کہ کرپٹو کرنسی کا معاملہ نہایت پیچیدہ ہے لہٰذا ہمیں اس کی حقیقت و شرعی حیثیت کو سمجھنے کے لئے خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے پھر‌ آپ نے ذکر کیا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق کرپٹو کرنسی کی جو موجودہ شکلیں ہیں چاہے وہ بٹ کوائن، لائٹ کوئن کی شکل میں ہو یا ریپیل کی شکل میں ہو ان کی تقریباً دس لاکھ سے زائد شکلیں ہیں.
یہ کوئی ایک کرنسی نہیں ہے بلکہ ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے بھی زائد ہیں اور ہر کرنسی کا معاملہ بالکل الگ ہے ایسا نہیں ہے کہ کرپٹو کرنسی جتنے بھی ہیں سب کا معاملہ حکم کے اعتبار سے، احکامات کے اعتبار سے اور دیگر ثمنیت یا مالیت کے اعتبار سے ایک ہے ایسی بات نہیں ہے بلکہ سب کا معاملہ ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ اور جدا جدا ہے لیکن ان کے درمیان جو قدر اشتراک والی بات یہ ہیکہ کرپٹو کرنسی مائننگ پروسیس ودیگر طرق کے ذریعے ہوتی ہے، اسکی صنعت اسکو وجود میں لانا یہ کمپیوٹر کے ایک سافٹ ویئر کا کام ہے اور یہ برقی ہے، غیر محسوس اور غیر ٹھوس اثاثہ جسے انٹاکیبل اسیٹ کہا‌ جاتا ہے الکٹرانک خفیہ کرنسی ہے اسے کبھی ای کامرس کرنسی کہتے ہیں کبھی ڈیجیٹل ٹوکن کہا جاتا ہے کبھی ڈیجیٹل منی کہا جاتا ہے لیکن یہ محض ایک ایسی پروگرامنگ ہے جو Pair 2 Pair یعنی شراکت دار یا پارٹنر تک براہ راست معاملہ داری ہوتی ہے اور یہ فرضی اور وہمی کرنسی ہے جسے ورچوئل منی بھی کہا جاتا ہے یہ کسی بھی مرکزی قانونی پابندی کے بغیر ایک ایسی آزاد کرنسی ہے جسے ڈی سینٹرلائزڈ کرنسی کہتے ہیں جس کا دار و مدار بلاک چین ٹیکنالوجی پر ہوتا ہے اور یہ بلاک چین ٹیکنالوجی یعنی پبلک لیزر یعنی عوامی ڈیجیٹل دفتر پر منحصر رہتی ہے، معروف انگریزی اخبار دی ہندو کے مطابق فی الحال دنیا بہر میں 47 ملین سے زیادہ کرپٹو کرنسی کے صارفین موجود ہیں، توجہ طلب بات یہ ہیکہ یہاں اشتباہ یہ ہوتا ہے، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو رقم آپ کے پاس بینک میں جمع ہے اور آپ اپنے کارڈ کے ذریعے یا دیگر ڈیجیٹل پیمنٹ ایپ جیسے گوگل پے، فون پے وغیرہ یو پی آئی طریقے سے ٹرانسفر کرتے ہیں وہ پیسوں میں اور اس‌ یعنی کرپٹو کرنسی میں کوئی فرق نہیں ہے حالانکہ یہ بہت بڑی غلط فہمی کی بات ہے جو سینٹرل بینک کی ڈیجیٹل کرنسی ہوتی ہے جسے آپ گوگل پے فون پے وغیرہ کے ذریعے ٹرانسفر کرتے ہیں حقیقت میں یہ فارم آف کیش یعنی ہی کی ایک شکل ہوتی ہے جبکہ کرپٹو کرنسی محض ایک فرضی کرنسی ہوتی ہے لہٰذا دونوں کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کرسکتے۔
کرپٹو کرنسی کی ابتدا سن ‌2008ء میں ایک غیر معروف جاپانی سائنسدان ستوشی ناٹا موٹو کے ذریعے رازدارانہ ڈیجیٹل ٹرانجیکشن کے لئے ہوئی جسے کبھی عام کرنسی کبھی فرضی کرنسی دونوں اعتبار سے کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی ایجاد کی وجوہات میں ایک رازدارانہ انداز سے معاملات کو رکھنا اور دوسری کیوک پیمنٹ اور فوری ادائیگی کی سہولت،‌ ساتھ ہی ساتھ ٹرانجیکشن فیس اور بینک چارجز سے اور مال کو چوری سے بچانا اور معاملہ دار کی شناخت کو صیغۂ راز میں رکھنا ہے اور اسکے ٹریڈینشل بروکر یا کرپٹو کرنسی ایکسچینجز کی ذریعے ایک پلیٹ فارم اختیار کرنا پڑتا ہے پھر اپنے اکاؤنٹ میں فنڈز محفوظ کرنے پڑتے ہیں اور اس کے بعد اس کرنسی کے ذریعے آپ کافی کپ بھی خرید سکتے ہیں اور ریئل اسٹیٹ میں انویسٹمنٹ بھی کرسکتے ہیں یعنی اسقدر میدان اور مجال کھلا رکھا گیا ہے، دلچسپ بات یہ ہیکہ اس میں اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے کسی بھی ڈاکومنٹس یعنی دستاویز کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے، کہا جاتا ہے کہ کرپٹو کرنسی مستقبل کی کرنسی ہے اور مستقبل مکمل ڈیجیٹل کرنسی کا ہوگا اسی لئے ان جیسے موضوعات پر ہر لحاظ سے فقہی تاصیل، اصولی تکییف اور تکنیکی تنظیر میں چار طرح کا اختلاف پایا جاتا ہے:-
پہلا موقف: بعض اہل علم کا مؤقف یہ ہیکہ او آئی سی آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن اس کے تحت ایک علمی و تحقیقی ادارہ چلتا ہے “مجمع الفقہ الاسلامی الدؤلی” یعنی اسلامک فقہ کی بین الاقوامی اکیڈمی، اس نے مؤرخہ 20/ نومبر 2019ء میں اس نے اس مسئلے کو مزید تحقیق طلب جانا یعنی باحثین، محققین و مؤرخین کی ایک ٹیم بیٹھی اور انہیں شرح صدر نہیں ہوا، تسلی اور تشفی نہیں ہوئی اور اس موضوع کو مزید تحقیق طلب انہوں نے قرار دیا، کچھ اہل علم ہیں جنھوں نے کرپٹو کرنسی کے ذریعے معاملہ داری کے سلسلے میں توقف اختیار کیا کیونکہ اس کرنسی کا اصل ماخذ صحیح طور پر معلوم نہیں ہوسکا اور اس کے متعلق بہت سارے سوالات، خطرات، خدشات اور پیچیدگیاں ابھی قابل تصفیہ ہیں، خلاصہ کرنے کی ہیں، لیکن ان احباب نے یعنی جنہوں نے اس معاملہ میں توقف اختیار کیا ہے اس کرنسی کے ذریعے جب معاملہ داری ہوتی ہے اور سال گزرتا ہے تو انہوں نے زکوٰۃ کو فرض بتایا کیونکہ وہ انکے یہاں مائل مال کے دائرے میں داخل ہوچکی ہے، تو پتہ چلا کہ کرپٹو کرنسی کے بارے میں پہلا موقف توقف اور خاموشی کا ہے۔

دوسرا موقف:

اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک جوکہ چند افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے کرپٹو کرنسی کے ذریعے لین دین کو جائز قرار دیا ہے اور اسکے جواز کی کچھ وجوہات انہوں نے بیان کی ہے مثلا تجارت میں اصل حلت ہے اور فرمان باری تعالیٰ ” وأحل الله البيع وحرم الربا” کے عموم سے انہوں نے استدلال کیا ہے اور فقہ المال سے انہوں نے استدلال کیا ہے کہ کرپٹو کرنسی بھی ایک طرح سے مال ہے، اور تیسری توجیہ یہ بتلائی کہ یہ صرف پروگرامنگ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، حقیقی مال اور اثاثہ ہے جیساکہ حکومت ہند نے بھی اسے ایک اثاثے کے طور پر ذکر کیا، اس کا استعمال اور‌ اس کا تبادلہ لوگوں نے شروع کیا جس کے ذریعے فی الحال آسٹریلیا کے اسٹاک ایکسچنج میں اور امریکہ میں کرپٹو کرنسی کی شکل میں سرمایہ کاری ممکن ہے، چوتھی وجہ انہوں نے امام مالک رحمہ اللّٰہ کا قول اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ کا قول انہوں نے ذکر کیا۔

تیسرا موقف:

جوکہ اکثر اہل علم یعنی جمہور کا ہے کہ کرپٹو کرنسی کو استعمال نہیں کرنا چاہئے، نہ خریدنا چاہئے نہ بیچنا چاہئے اور کسی بھی طرح سے اس کے ذریعے معاملہ داری نہیں کرنی چاہئے، اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے سلسلے میں متفقہ طور پر لوگ کسی نتیجے پر آج تک نہیں پہنچ سکے ہیں لہٰذا یہ واضح نہیں ہے کہ کرپٹو کرنسی کو کس کا درجہ دیں مبیع کا درجہ دیں، سلع کا درجہ دیں یا پھر مال کا درجہ دیں یا شئے کا درجہ دیں یا ڈیجیٹل کرنسی کا درجہ دیں، ضروری ہے کہ اس کو کسی ایک کے درجہ میں رکھیں اور اسکے احکامات اس پر لاگو ہوں، دوسری وجہ اینکہ کرپٹو کرنسی صرف پروگرامنگ نیٹ ورک ہے تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ کہ حکومتوں کی طرف سے مصدقہ اور مسلمہ نہیں ہے اور اس پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ کے قول سے استدلال کیا گیا ہے: “لا يصلح ضرب الدراهم إلا في دار الضرب، بإذن السلطان” یعنی “کرنسی کی صنعت صرف حاکم کی اجازت سے حکومتی اداروں میں ہونی چاہئے” جبکہ کرپٹو کرنسی کچھ افراد کے ہاتھ میں رہتی ہے کیونکہ لوگوں کو اگر اسکی اجازت مل جائے، اپنے اپنے دائرے میں اسے بنانے، رائج کرنے کی اجازت مل جائے تو وہ بڑی غلطیاں اور من مانیاں کرنے لگیں گے، نیز عدم جواز کی ایک وجہ یہ بھی ہیکہ اس میں غرر، جہل اور ہائی رسک انویسٹمنٹ ہے اور ساتھ ساتھ میسر یعنی جوا اور گیملنگ کا بھی شبہ ہے، اس کے علاوہ عدم جواز و حرمت کی دیگر کئی اہم و ٹھوس وجوہات جیسے دہشتگردی وغیرہ بھی شامل ہیں، سعودی عرب کے ممتاز عالم دین شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللّٰہ نے اسے حرام قرار دیا ہے نیز ہندوستان میں فقہ حنفی کے معروف عالم دین مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بھی اسے حرام‌ قرار دیا ہے۔

چوتھا موقف:

یہ ابھی ایک سواری کی طرح ہے جو ” بیع الثمار قبل بدوء صلاحها” ابھی ارتقائی مرحلے میں ہے جب یہ شرعی خلاف ورزیاں ختم ہوجائیں گی تو اسکی اجازت مل سکتی ہے۔

خلاصہ اینکہ کرپٹو کرنسی میں خطرات و خدشات بہت زیادہ ہیں، مصلحتوں پر جو غالب نقصانات کے پہلو ہیں ان‌ تمام وجوہات کی بناء پر لوگوں کو اس معاملہ داری سے احتیاط کرنی چاہئے وگرنہ اس سلسلے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے اور کل چار طرح کے موقف ہیں: پہلا توقف کا ہے دوسرا موقف جواز کا ہے اور اس موقف کی تائید سعودی عرب کے معروف اسکالر شیخ سعد بن ترکی الخثلان حفظہ اللّٰہ بھی کرتے ہیں اور جنہوں نے جواز کی نو وجوہات بیان کی ہیں لیکن میرے علم کے مطابق 23/ وجوہات ایسے ہیں کہ جنکی بنیاد پر کرپٹو کرنسی کا استعمال جائز نہیں ہے اور یہی تیسرا موقف عدم جواز کا ہے، چوتھا موقف یہ ابھی ارتقائی مرحلے میں ہے جب اسکے خدوخال واضح ہوجائیں تب ہوسکتا ہے اس کے احکامات تبدیل ہوں

واللہ أعلم بالصواب

ڈاکٹر سید حسین مدنی حفظہ اللّٰہ

یہ بھی پڑھیں: سانحہ “پنجاب کالج” لاہور