سوال (456)

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس جدید مسئلہ کے متعلق کہ امریکا کی ایک انتہائی جدید ترین اور انتہائی مہنگی لیبارٹری ڈی این اے ٹیسٹ کرتی ہے ، اس کا جو اس وقت تک سب سے مہنگا اور جدید ترین ڈی این اے ٹیسٹ ہے اسکا نام The BIGY 700 ہے ۔لیبارٹری والوں کا مؤقف ہے کہ یہ ٹیسٹ صرف مرد ہی کروا سکتے ہیں ، کیونکہ مردوں ھی میں نسل بعد نسل اپنے مرد اجداد سے Y سیکس کروموزوم Y Sex Chromosome منتقل ہوا کرتا ہے ۔خواتین میں یہ والا Y chromosome ہوا ہی نہیں کرتا ۔سائنس دان کہتے ہیں کہ Y sex chromosome اندازا کوئی تین لاکھ سال قبل ایک مرد سے چلتا ھوا نسل بعد نسل ھر مرد کے اندر اپنے اپنے والد سے منتقل ہوتا چلا آ رھا ہے اور سائنس دانوں نے اسی بنیاد پر یہ BIGY paternal ancestry genealogy test بنایا ہے ۔جب کوئی مرد اپنی تھوک کا نمونہ sample انکو دیتا ہے تو وه اس میں سے ڈی این اے الگ کرتے ہیں اور پھر مہینوں کی محنت کے بعد وه اس شخص کو پچھلے تین لاکھ سالوں تک اس کے اجداد کے dna tested y chromosome haplo groups بتاتے ہیں ۔یہ ٹیسٹ عرب میں اور یورپ امریکا وغیرہ میں بہت عام ہو چکا بلکہ اب تو پاکستان ہندوستان میں بھی لوگ اسی ٹیسٹ کو اپنا شجرہ نسب اپنی تاریخ اپنے حقیقی اجداد کی تاریخ جاننے کے لیے استعمال کر رھے ھیں ۔اس ٹیسٹ کو ابراھیمی ۔عرب ۔قریشی ۔هاشمی ۔سید ۔حسنی ۔حسینی انساب کے ثبوت کے لیے بھی آج کل بہت زیادہ استعمال کیا جا رها ہے ۔کیا صدیوں پرانی تاریخ اور نسب کو پرکھنے کے لیے ڈی این اے کو بنیاد بنانا شرعی طور پر جائز ہے ۔نیز کیا یہ علم سائنسی طور پر درست هو سکتا ہے یعنی کیا ایسا ممکن بھی هو سکتا ہے یا نہیں ۔کیونکہ یہ سائنس دان جب چند ماہ بعد پہلا بنیادی ترین dna haplo group نتیجہ بتاتے ہیں تو وه بھی پچیس ھزار سال قدیم ھوتا ہے جب کہ تار کے مطابق تو پچیس ھزار سال پہلے کوئی انسان تھا ھی نہیں ۔اور پچیس ھزار سال پہلے نتیجہ بتاتے ہیں تو ایسا نہیں کہ وه پہلے انسان نتیجہ ہے بلکہ جو پہلا انسان انکے مطابق تھا جو تمام موجودہ مردوں کا مشترکہ والد جد امجد تھا وه کم از کم تین لاکھ سال پہلے تھا ۔

جواب

میرے خیال میں گپیں لگانے پر کوئی پابندی اور دلیل کی ضرورت نہیں ھے ۔۔۔اصل میں نسل نو کو احساس کمتری کا شکار بنانا ہے اور عقائد واعمال سے دور کرنا ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

بغیر وجہ کے نسب معلوم کرنے کے لیے یا ویسے تاکید کے لیے ڈین این اے ٹیسٹ کروانا قطعا جائز نہیں ، علماء نے بعض اضطراری حالات میں ڈین این اے کی اجازت دی ہے مثلا کوئی شخص مجھول النسب ہے ۔ یا پھر اگر ہسپتال میں بچوں کی نرسری میں بچوں کے درمیان کوئی اشتباہ پیدا ہو گیا ہے وعلی ھذا القیاس ۔
بصورت دیگر جائز نہیں ، ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی بیٹا جا کے اپنے آباؤ اجداد معلوم کرنے کی لیے ٹیسٹ کرواتا ہے تو اگر وہ آپس میں ہی میچ نہ کریں تو نسب کے اثبات اور نفی کا طریقہ “فراش” اور “لعان” ہے نہ کہ ڈی این اے

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ