سوال (3372)

ابن سیرین قال: لابأس به أن نأخذ أصول لحيتك: [كتاب المصنف ابن أبي شيبة حديث : ٢٥٤٠]

ابو الهلال رضى اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حسن رضی اللہ عنہ اور ابن سرین رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ داڑھی کو چھوٹا رکھنے میں کوئی حرج نہیں.
حضرت محمد صلی علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں.

“عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه و آله وسلم قَالَ مِنْ سَعَادَةِ الرَّجُلِ خِفَّةُ لِحْيَتِهِ:

ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا داڑھی کا چھوٹا ہونا مرد کی سعادت میں سے ہے۔”
[رواه الطبراني، باب البأس، مطبوعة بيروت، شرح المشكوة جلد ۸ ص ۲۹۸، باب الرجل فصل ثاني ص: 128 الكامل، ج 7]
تشریح ثابت ہوا کہ داڑھی کو چھوٹا رکھنا سعادت والی بات ہے۔
اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

موضوع ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

پہلا اثر جو ثقہ تابعی حسن بصری، ثقہ تابعی امام محمد بن سیرین رحمهما الله تعالى سے جو ہے اس کی تائید کسی بھی مرفوع موقوف روایت سے نہیں ہوتی ہے
تنبیہ: صحابی کے علاوہ کے لئے ہمیں رحمه الله تعالى لکھنا اور بولنا چاہیے ہے رضی الله عنہ نہیں یہ صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے لئے ہے، تابعی کے لئے لکھنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ عام شخص انہیں صحابی سمجھ لے گا، رہی دوسرے نمبر پر روایت تو وہ من گھڑت ومنکر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ اﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺑﺎﻟﻌﻤﺎﻧﻲ ﻗﺎﻝ: ﺃﺑﻮ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﻘﺸﻴﺮﻱ ﻗﺎﻝ: ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻷﺯﻫﺮ ﻗﺎﻝ: ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻗﻴﺲ ﻗﺎﻝ: ﺳﻜﻴﻦ ﺑﻦ اﻟﺴﺮاﺝ ﻗﺎﻝ: اﻟﻤﻐﻴﺮﺓ ﺑﻦ اﻟﺴﻮﻳﺪ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻣﻦ ﺳﻌﺎﺩﺓ اﻟﻤﺮء ﺧﻔﺔ ﻟﺤﻴﺘﻪ
[بحر الفوائدالمسمى بمعاني الأخبار: ص : 49 ]

اس سند میں دو اہم علتیں ہیں.
ﺳﻜﻴﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﺮاﺝ اور اﻟﻤﻐﻴﺮﺓ ﺑﻦ ﺳﻮﻳﺪ دونوں مجروح راوی ہیں.
امام دارقطنی نے کہا:

ﻳﻮﺳﻒ ﺑﻦ اﻟﻐﺮﻕ، ﻭﺳﻜﻴﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﺮاﺝ، ﻭﻣﻐﻴﺮﺓ ﺑﻦ ﺳﻮﻳﺪ ﻛﻠﻬﻢ ﻣﺘﺮﻭﻙ اﻟﺤﺪﻳﺚ
[تعلیقات الدارقطنی علی المجروحین : 144]

امام ابن حبان نے کہا:

ﺳﻜﻴﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﺮاﺝ ﺷﻴﺦ ﻳﺮﻭﻱ اﻟﻤﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﻋﻦ اﻷﺛﺒﺎﺕ ﻭاﻟﻤﻠﺰﻗﺎﺕ ﻋﻦ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﺭﻭﻯ ﻋﻦ اﻟﻤﻐﻴﺮﺓ ﺑﻦ ﺳﻮﻳﺪ ﻋﻦ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﻦ ﺳﻌﺎﺩﺓ اﻟﻤﺮء ﺧﻔﺔ ﻟﺤﻴﺘﻪ [المجروحین لابن حبان : 474]

اسے کے دیگر طرق دیکھیے الکامل لابن عدی :8/ 506 ،507
بنیادی وجہ ضعف وہی اوپر والے ہیں
امام خطیب بغدادی نے اس روایت کو بمع نقد و جرح کے ﻳﻮﺳﻒ ﺑﻦ اﻟﻐﺮﻕ کے ترجمہ میں نقل کیا ہے۔
دیکھیے تاریخ بغداد: 7560 ، 16/ 436
اس کا ایک منکر شاہد بھی ملاحظہ فرمائیں.

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺳﻨﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺤﺴﻴﻦ اﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺑﻘﻴﺔ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭﺭﻗﺎء ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﺰﻧﺎﺩ ﻋﻦ اﻷﻋﺮﺝ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: ﺇﻥ ﺭﺃﺱ اﻟﻌﻘﻞ اﻟﺘﺤﺒﺐ ﺇﻟﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻭﺇﻥ ﻣﻦ ﺳﻌﺎﺩﺓ اﻟﻤﺮء ﺧﻔﺔ ﻟﺤﻴﺘﻪ [الکامل لابن عدی 3/ 239]

امام ابن عدی اسے نقل کرنے کے ساتھ ہی نقد یوں کرتے ہیں.

ﻭﻫﺬا ﺃﻳﻀﺎ ﻣﻨﻜﺮ ﺑﻬﺬا اﻹﺳﻨﺎﺩ، ﻭاﻟﺤﺴﻴﻦ اﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ ﻻ ﺃﻋﺮﻑ ﻟﻪ ﻣﻦ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻏﻴﺮ ﻣﺎ ﺫﻛﺮﺗﻪ ﻭﻟﻌﻞ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻟﻪ ﻏﻴﺮﻩ ﻓﻴﻜﻮﻥ ﺷﻴﺌﺎ ﻳﺴﻴﺮا ﻭﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻣﻨﺎﻛﻴﺮ [الکامل لابن عدی :3/ 239]

اس سند میں بقیہ بن ولید کی تدلیس تسویہ بھی ہے اور سماع مسلسل کی صراحت موجود نہیں ہے۔
المختصر اس معنی کی کوئی روایت ثابت نہیں ہے نہ ہی داڑھی کی کانٹ چھانٹ پر کوئی صحیح وصریح دلیل موجود ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ