سوال
مفتی صاحبان سے میرا سوال ہے کہ پاکستان پوسٹ نے ویلج پوسٹ مین رکھے ہوئے ہیں، جو کہ گاؤں کے اندر ڈاک تقسیم کرتے ہیں اور دو بندے ہوتے ہیں ایک کو 1560 روپے ماہانہ دیتے ہیں اور دوسرے کو 1200 سے کچھ اوپر روپے ماہانہ دیتے ہیں؟ اس کے علاوہ کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے، مگر اب تقریباً ایک سال سے کچھ بھی معاوضہ نہیں دے رہے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا پوسٹ مین/ ڈاکیا جس کو ڈاک تقسیم کرے یا وہ پوسٹ مین/ ڈاکیا کے گھر سے آ کر لے جائیں تو اس سلسلے میں ان سے کچھ رقم کا مطالبہ کر سکتا ہے، 100 یا 50 یا 20 روپے اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیں؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
جب کوئی آدمی کسی کو خط لکھتا ہے یا ڈاک بھیجتا ہے تو وہ محکمے/ کمپنی کو اس کی قیمت ادا کرتا ہے پھر اسکو مکتوب الیہ تک پہنچانا محکمے کی ذمہ داری ہوتی ہے، اور وہ اس کو مکتوب الیہ تک پہنچانے کے لیے کسی کو تنخواہ پر رکھتے ہیں، اسکو تنخواہ کم ملتی ہے یا زیادہ اسکا تعلق محکمے کے ساتھ ہے۔
اس لیے ڈاکیا کسی کے گھر سے ڈاک لے کر جائے یا کسی کے گھر پہنچائے، اسے مکتوب الیہ تک پہنچانا محکمہ کی ذمہ داری ہے، ڈاکیا اپنی ذمہ داری مفت میں نہیں بلکہ پیسے لے کر ادا کرتا ہے، لہذا ڈاکیے/ ملازم کا ڈاک بھیجنے والے سے الگ سے معاوضے کا مطالبہ اور رقم وصول کرنا شرعی طور پر درست نہیں ہے۔
البتہ اگر ڈاکیا اسکے بغیر اپنی ذمے داری ادا نہیں کرتا اور آپ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر دفعِ شر کے لیے معاوضہ دیا جاسکتا ہے، اگرچہ اسکا مطالبہ کرنا غلط ہے۔
اسی طرح اگر محکمہ اپنے ملازمین کو تنخواہ ادا نہیں کرتا تو یہ بھی محکمے کی کوتاہی ہے، جس کا ذمہ دار عوام کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا ، ہاں البتہ ڈاکیے کو یہ اختیار ہے کہ وہ محکمے کی لاپرواہی کے سبب اس ذمہ داری سے استعفی دے دے، جس کا محکمے کی طرف سے اسے پابند قرار دیا گیا ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ