میرے حضور کی عمر چھ برس ہونے کو تھی کہ والدہ بی بی آمنہ کا ارادہ ہوا کہ جناب عبداللہ کے ننہیال کو ملنے کو جی چاہا کہ جو مدینے کے جوار میں رہتے تھے ، یہ بنی عدی بن نجار تھے سو اپنے بیٹے کو ساتھ لیا اور سفر کو نکلیں ، پھر کچھ روز ادھر قیام کیا اور واپسی کے لیے رخت سفر باندھا ۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ سفر ہمیشہ سفر نا تمام رہے گا ۔۔۔
مکہ اور مدینہ کے درمیان ابوا کے مقام پر وہ جان ہار گئی یتیمی کے بعد پھر ایک یتیمی کا سامنا تھا۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو.
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
میرے حضور کی عمر تب ابھی صرف چھ برس تھی ۔ اندازہ تو کیجئے کہ ایک بچہ کہ دنیا میں آنے سے پیشتر والد رخصت ہوئے ، باپ کی شفقتیں پا ہی نہ سکے اور صرف چھ برس کی عمر میں ماں کی محبتوں سے بھی محروم ہوئے۔ بہت برس گزرے جب رسول مکرم اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی سفر پر تھے کہ اسی مقام میں پہنچے تو ساتھیوں کو کہا
” یہاں کچھ دیر کو رکنا ہے ”
پھر ایک قبر کے پاس پہنچے اور بیٹھ گئے۔ ساتھی بھی دائیں بائیں بیٹھے۔ حضور نے گفتگو کے انداز میں سر کو کچھ ہلایا اور آنکھوں میں برسات تھی۔ پاس سے سیدنا عمر نے پوچھا :
” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ماجرا ہوا ؟”
آنسوؤں کے بیچ میں فرمایا:
“یہ میری والدہ کی قبر ہے، اللہ سے زیارت کی اجازت طلب کی تھی، سو اجازت مل گئی۔ (ایک اور امر ) کی درخواست کی تو اجازت نہ ملی۔ جب میں نے یہ سنا تو رقت طاری ہو گئی”
مائیں نی میں کنوں آ کھاں
درد وچھوڑے دا حال نی
ماؤں کے وچھوڑے بھی عجیب ہوتے ہیں کہ دو جہانوں کا سردار، انبیاء کا سرتاج کہ ساری کائنات سے جو افضل۔۔۔۔۔۔ وہ بھی ماں کی قبر پہ جاتے ہیں تو آنسوؤں کی برسات ہو جاتی ہے ۔
حضور اب جوان ہو رہے تھے ، ماں باپ کی رخصتی کے بعد اب دادا کی انکھوں کا تارا ہوئے۔ ایک لمحے کو جدا ہوتے تو دادا کا دل بند ہوتا۔ کندیر بن سعید اپنے والد سعید سے روایت کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی بیت اللہ کا طواف کر رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ شعر پڑھ رہا ہے
ربی رد الی راکبی محمداً
ردہ رب الی واصطنع عندی یداً
میرے رب میرے سوار محمد کو لوٹا دیجئے
اے میرے رب ! اسے میرے پاس لوٹا دے
اور اسے لوٹا دے مولا
یہ تیرا میرے اوپر بڑا احسان ہوگا ۔
سعید کہتے ہیں میں نے لوگوں سے پوچھا :
” یہ کون ہے جو یہ شعر پڑھ رہا ہے ؟” ۔
لوگوں نے بتایا کہ
“عبدالمطلب بن ہاشم ہیں” یعنی ہمارے حضور کے دادا ۔
“ان کے اونٹ کہیں چلے گئے تھے ان کی تلاش میں انہوں نے اپنے بیٹے محمد کو بھیجا ہے اور وہ اب تک نہیں آئے اس انتظار میں یہ درد میں مبتلا ہیں، یہ انتظار کے کرب کا شکار طواف میں دعا مانگتے ہیں ۔
بھیجنے کا سبب یہ تھا کہ آپ جس کام کے لیے جاتے تو کام ضرور ہو جاتا ۔ سعید کہتے ہیں “میں وہاں رک گیا حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اونٹوں کے ہمراہ کامیاب لوٹے”
عبدالمطلب نے کہا :
” اے میرے پیارے بیٹے جب تک تم نہیں آئے تھے تمہاری اس جدائی پر میں غم و اندوہ میں ڈوبا رہا تمہیں دیکھ کر قرار آیا اب مجھ سے کبھی جدا نہ ہونا۔”
عبدالمطلب کا بڑا رعب تھا ایک خاص دبدبہ تھا۔ حرم کعبہ کے صحن میں آپ کے لیے ایک قالین بچھا دیا جاتا۔ آپ کے بیٹے اور مکہ کے بڑے بڑے لوگ اس قالین کے آگے آپ کے سامنے بیٹھے ہوتے۔ اس قالین پر عبدالمطلب کے سوا کوئی نہ بیٹھتا۔ ہمارے حضور کی عمر چھ برس تھی آپ آتے تو سیدھا اسی قالین پر اپنے دادا کے ساتھ بیٹھ جاتے۔ دادا کے سامنے کوئی ہٹانے کی کوشش کرتا تو وہ منع کرتے کہ چھوڑ دو یہ صاحب قدر و منزلت ہے۔
مشکلیں ابھی اور باقی تھی۔ عبدالمطلب دنیا سے رخصت ہوئے، دم رخصت اپنے بیٹوں کو طلب کیا بیٹوں نے باپ کے سر پہ کھڑے ہو کے مرثیہ پڑھا۔ ابن ہشام کہتے ہیں کہ افسوس یہ اشعار محفوظ نہیں رہے ۔ ابنِ کثیر کہتے ہیں کہ محفوظ رہ پاتے تو یہ اعلی درجے کی نوحہ گری ہوتی۔
کچھ وصیتیں کیں کچھ مناصب تقسیم کیے، اپنے بیٹے زبیر اور ابو طالب کے ہاتھ میں حضور کا ہاتھ بھی دیا اور عبدالمطلب دنیا سے رخصت ہوئے۔ چچا زبیر صاحب ثروت تھے اچھے تاجر تھے اور سب سے بڑھ کر رسول سے بے حد محبت کرتے تھے، ابو طالب گو بہت امیر تو نہ تھے لیکن وہ بھی آپ سے از حد محبت کرتے تھے اور انہوں نے بعد ازاں آپ کی سرپرستی کا حق ادا کر دیا۔
” فاطمہ بنت عمرو کے بطن سے عبد المطلب کے تین بیٹے تھے ؛ زبیر، ابو طالب اور عبدﷲ ۔۔۔۔
ان میں عبد الله نبی کریم کے والد تھے ۔۔۔
یہ تینوں بھائی ماں باپ کی طرف سے حقیقی بھائی تھے ۔۔۔
زبیر ایک شاندار شخصیت کے مالک تھے اور روایتی عرب اوصاف کے حامل ۔۔ابن سعد اپنی کتاب طبقات میں لکھتے ہیں :
’’وَ الزُّبَیْرُ کَانَ شَاعِرًا شَرِیْفًا وَ اِلَیْہِ اَوْصَی عَبْدُ الْمُطَّلِبِ
زبیر شاعر اور باعزّت شخص تھے کہ جن کو عبد المطلب نے اپنا وصی مقرر کیا تھا۔۔۔۔
زبیر اپنے والد کے بڑے بیٹے تھے سو اسی رعایت سے قبیلے کے سردار بھی بنے ۔۔۔۔
کہا کرتے :
“یہ میرے مرحوم بھائی کی نشانی ہے ، عیش سے جئے اور عزت میں کمال پائے ۔۔۔۔۔۔”
جی ہاں ہاتھوں میں جھولے جھلاتے تایا اپنے بھتیجے کو یہ دعائیں دیتے ۔
اسی طرح جناب ابی طالب ہر کٹھن دور میں رسول (ﷺ) کے آگے ڈھال بن کر کھڑے رہے ۔ شام کی طرف سفر کیا تو رسول (ﷺ) کو ساتھ لے کر گئے۔
ابو موسی اشعری رض کہتے ہیں کہ سفر میں قریش کے کچھ اور بڑے لوگ بھی شامل تھے ۔ راہ میں ایک درگاہ تھی کہ جس کا راہب بحیرہ اب تاریخ کے پنوں میں محفوظ ہو گیا کہ یہ سب ہمارے حضور کی برکات ہی تو ہیں۔ سب سواریوں سے اترے اور ان کے کجاوے اتارنے لگے ۔ وہ راہب وہیں ہوتا اور اہل قریش پہلے بھی اس کے پاس سے گزرتے، کچھ دیر کو رکتے ، لیکن نہ کبھی اس نے ان کی طرف توجہ کی نہ کبھی باہر آ کے ملا ۔ اب کے لیکن عجیب ماجرا تھا کہ پہلی بار وہ باہر ایا اور گرم جوشی سے ملا حالانکہ ابھی یہ اپنے اونٹوں سے کجاوے اتار ہی رہے تھے کہ اس نے آ کر حضور کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا
” ھذا سید العالمین ھذا رسول رب العالمین ھذا یبعثہ اللہ رحمۃ للعالمین ”
یہ کائنات کے سردار ہیں رب کائنات کے پیغام بر ہیں ، رب عظیم نے ان کو رحمت بنا کر بھیجنا ہے ۔
قریش کے بزرگ کچھ حیران ہوئے:
” ارے بھائی ! تم کیسے جانتے ہو ان کو کہ یہ پیغمبر ہوں گے ؟
اس نے کہا:
جب تم گھاٹی پر چڑھے ہوئے تھے تو میں نے دیکھا درخت اور پتھر تک جھکے ہوئے تھے اور یہ تعظیم وہ صرف نبی کے لیے ہی کرتے ہیں اس لیے میں آج تو میں کہتا ہوں کہ یہ نبی ہیں ۔۔۔
تایا زبیر بھی جلد ہی دنیا سے رخصت ہوئے۔ اس بیچ ہمارے حضور بھی چوبیس برس کو پہنچ چکے تھے جناب ابی طالب کے گھر رہتے اور اب وہ محض کفالت میں نہ تھے بلکہ آگے بڑھ کے گھر کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے تھے برکتیں اب کے ابو طالب کے گھر میں بھی ساتھ ساتھ سفر کر رہی تھیں ۔
امام ابن کثیر بیان کرتے ہیں کہ جب کھانے کا وقت ہوتا تو ابو طالب کہتے کہ آپ کا انتظار کرو وہ آتے ہیں ہمارے ساتھ برتن میں کھانا کھاتے ہیں تو کھانا بچ رہتا ہے کہ محمد کے قدم مبارک ہیں۔ چنانچہ ابو طالب کہا کرتے تھے کہ محمد کے قدم مبارک ہیں۔
صلی اللہ علیہ وسلم

ابو بکر قدوسی