سوال (2101)
داڑھی کی کیا مقدار رکھنی چاہیے، جس سے بندہ گہنگار نہیں ہوگا، معاشرے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کا یہ اثر معروف ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ایک مشت سے زیادہ داڑھی کاٹتے تھے؟
جواب
داڑھی مکمل ہونی چاہیے، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے داڑھی کو معاف کرنے کا حکم فرمایا ہے، حکم کے مقابل کوئی قرینہ موجود نہیں ہو تو وہ وجوب کے حکم میں ہوتا ہے، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ایک مٹھ سے زائد داڑھی کو کاٹ دینا نہ عام طور پر ثابت ہے نہ ہی ایام حج میں ثابت ہے، ایام حج میں صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا حلق کروانا تو بیان کیا ہے، مگر کسی ایک صحابی نے داڑھی کا خط کروانا اور کاٹنا بیان نہیں کیا ہے، باقی رہا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کا حج کے موقع پر داڑھی کو کاٹنا تو یہ ان کا اپنا اجتہاد تھا، وہ تقصیر کے معنی میں داڑھی کو شامل سمجھتے تھے، ناکہ وہ مستقل کسی صحیح دلیل کی بنیاد پر ایسا کرتے تھے، تو ان کا عمل صرف ایام حج کے ساتھ خاص تھا اور اس کا بھی خاص سبب تھا کہ سر کے بالوں میں وہ داڑھی کو شامل کرتے تھے کہ یہ بھی اس حکم میں ہے، اس عمل میں کسی صحابی نے ان کے موافقت نہیں کی ہے، اگر کوئی کہے کہ کسی اور صحابی نے ان کی مخالفت و نکیر کیوں نہیں کی تو عرض ہے کہ ان کے اجتہاد کے سبب دوسرا کسی نے ان کے اس عمل کی پیروی بھی تو نہیں کی ہے،
پھر سیدنا طلحہ رضی الله عنہ سے حالت روزہ میں برف کے اولے کھانا ثابت ہے وہ کہتے تھے یہ کھانے کے حکم میں نہیں ہیں، وہ اس سے روزہ نہ ٹوٹنے کا خیال رکھتے تھے، اب ادہر بھی ان کے اس عمل پر کوئی نکیر و رد موجود اور ثابت نہیں ہے تو کیا اب حالت روزہ میں ہم برف کے گولے بنا کر کھانے لگ جائیں گے، نہیں ہرگز نہیں، کیونکہ شرعی طور پر ان کا عمل مرجوح تھا اور راجح صحیح مسئلہ یہی ہے کہ عمدا کچھ لگا پی لینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، تو ہمارے لیے اسوہ حسنہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ہیں اور آپ کی داڑھی مبارک بڑی تھی، کئی صحابہ و سلف صالحین کی بڑی داڑھیوں کا ذکر ملتا ہے۔
اس لیے اطاعت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا تقاضا ہے کہ داڑھی پوری رکھی جائے، یاد رہے اجتہاد کرنے والے کا اجتہاد اگر درست ہے تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور اگر وہ خطاء پر مبنی اجتہاد ہے یا کسی نص کی بنیاد پر فہم میں خطاء کے سبب ہوا ہے، تب بھی وہ ایک اجر رکھتا ہے، رب العالمین نے ہمیں اختلاف کی صورت میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے اور سنت صحیحہ سے داڑھی کو معاف کرنے کا ہی حکم ہے، سو اسے اپنے دل کی خوشی کے ساتھ مکمل رکھیں۔
والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ