سوال (5426)
داڑھی کے متعلق ایک دوست نے کلپ بھیجا جس میں ایک ڈاکٹر ساجد حمید کے نام سے ہے کہہ رہا ہے کے داڑھی کے رکھنے کا حکم اللہ کے رسول نے نہیں دیا بلکہ یہودیوں کی مخالفت میں دیا اور اگر آج ہم سکھوں کے درمیان ہوں تو کیا ان کی مخالفت میں کٹوائیں گے اسی طرح اور احکام بھی کپڑے کے رنگنے کے متعلق اور داڑھی کے رنگنے کے متعلق مخالفت کا حکم دیا کلپ کا لنک بھی بھیج دیتا ہوں لکھنے میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
https://youtu.be/_R_Yg-JQ-6g?si=T6PPl1CQIMGIfRr
جواب
میں نے لنک والی ویڈیو درس کچھ سنا ہے موصوف غامدی صاحب کے شاگرد لگتے ہیں اور یہ اھل قرآن سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ یہ ظاہر میں احادیث کو ماننے کا دھوکا دیتے ہیں اور جس حدیث کو نہیں ماننا ہوتا اسکو اختلاف کہہ کر رد کر دیتے ہیں اور سامعین یہ سمجھتے ہیں کہ شاید واقعی کوئی ضعیف حدیث ہے یہی کام اس نے اس ویڈیو میں کیا ہے۔
دیکھیں داڑھی بڑھانے کی علت خالی کفار کی مخالفت نہیں بلکہ اصل علت وہ فطرت ہے جس کا ذکر پہلے تو قرآن میں ہے فاقم وجھک للدین حنیفا فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا اور بخٓاری کی حدیث ہے کہ کل مولود یولد علی الفطرۃ کہ ہر بچہ فطرت پہ ہی پیدا کیا جاتا ہے پس داڑھی رکھنے کی اصل علت وہ فطرت ہے جس پہ انسان کو پیدا کیا گیا ہے اسکی دلیل یہ ہے کہ صحیح مسلم میں عائشہؒ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے کہ
عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ ” قَالَ زَكَرِيَّا: قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ،
’’دس خصلتیں فطرتِ اسلامیہ میں سے ہیں: (۱) مونچھیں کاٹنا،(۲) داڑھی کو چھوڑ دینا،(۳) مسواک کرنا، (۴) وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانا، (۵) ناخن کاٹنا، (۶) انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، (۷) بغل کے بال نوچنا، (۸) زیرِ ناف بال مونڈنا، (۹) استنجاء کرنا، راوی کا کہنا ہے کہ دسویں چیز مجھے بھول گئی ہے،شاید کلی کرنا ہو۔‘‘
پس اصل علت داڑھی کو بڑھانے کی رسول اللہ ﷺ نے یہ بیان کی ہے جو ہر جگہ ہر موقع کے لئے صحیح ہے اور علت کی شرط پہ یادہ پوری اترتی ہے ہاں جہاں نصاری یا مجوس کی مخالفت کا ذکر ہے تو وہ علت کسی خاص پس منظر میں اضافی علت ہو سکتی ہے مثلا کسی علاقے کے نصاری داڑھی کم رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں یا پھر مونچھیں بڑی رکھتے ہوں تو اس پس منظر والے کسی صحابی کے سامنے وہ ذکر کر دی گئی ہو مگر اصل علت تو ختم نہیں ہوتی۔ مثلا کوئی استاد طالب علم کو کہتا ہے کہ محنت کرو تاکہ کامیاب ہو جاو اب یہ علت یعنی امتحان میں کامیان ہونا ہی اس حکم کی اصل یا کامن علت ہے لیکن وہی استاد کسی دوسرے طالب علم کو کہتا ہے کہ تم محنت کرو تاکہ تمھارے والدین خوش ہو جائیں اب یہ علت کامن علت نہیں ایک خاص پس منظر میں ہے جب اسکے والدین کی خواہش کو ذکر کرنا زیادہ اہم ہو، پس اوپر مدرس صاحب نے یہی دھوکا دیا کہ جو اصل علت تھی یعنی داڑھی کا فطرت سے ہونا تو اسکو کہ دیا کہ یہ ضعیف روایت ہے حوالہ ذکر ہی نہیں کیا کیونکہ اگر ذکر کرتا تو سامنے والے جان جاتے کہ یہ مسلم کی روایت کو ضعیف کہ رہا ہے تو لازمی کوئی منکر حدیث ہو گی۔پس ہمارے لئے حکم داڑھی فطرت کی علت کی وجہ سے رکھنا لازم ہے دوسری علت یعنی کفار کی مخالفت کو ہر کوئی اپنی مرضی سے نہیں دیکھ سکتا جیسا کہ مدرس کہ رہے ہیں کہ کارل مارکس کی بہت بڑی داڑھی تھی وغیرہ۔
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
اتباع رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم اتباع قرآن کریم ہے۔
اطاعت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم در حقیقت الله تعالی کی اطاعت ہے۔
داڑھی خود رب العالمین نے مرد کے چہرے پر پیدا فرمائی اگر یہ غیر ضرور چیز تھی تو اس کے متعلق قرآن کریم نے کیا حکم واصول بیان فرمایا ہے؟
الله تعالى نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کو امت کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک قدرے لمبی اور خوب گھنی تھی۔
صحابہ کرام وسلف صالحین سے داڑھی کے متعلق یہ والا فھم وتصور کس کا تھا؟
کیا ان کے اس باطل فھم دین کے موافق کوئی سلف صالحین میں سے ہوا ہے؟
باقی داڑھی کے متعلق ایک اور تحریر پر میری طرف سے کچھ توضیح و تفصیل تھی وہ پیش کئے دیتا ہوں۔
اس میں ترجمہ غلط کیا گیا اور بعض کا یوں کہنا شریعت ودین نہیں ہے اور داڑھی کو معاف کر دینے چھوڑ دینے کا حکم ہے اور مونچھوں کو پست کرنے کا جبکہ لمبی، گھنی داڑھی تو رسول مکرم صلی الله عليه وسلم وکبار سلف صالحین کی بھی تھیں۔
مثلا:
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﻟﻔﻀﻞ ﺑﻦ ﺩﻛﻴﻦ ﻭﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﻗﺎﻻ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ ﻋﻦ ﺳﻤﺎﻙ ﺃﻧﻪ ﺳﻤﻊ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﺳﻤﺮﺓ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺜﺮ. ﻳﻌﻨﻲ اﻟﺸﻌﺮ ﻭاﻟﻠﺤﻴﺔ. ﻗﺎﻝ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ: ﻛﺜﻴﺮ ﺷﻌﺮ اﻟﻠﺤﻴﺔ، صحيح مسلم:(2324)،الطبقات الکبری:1/ 331،مصنف ابن أبى شيبة:(31808)مسند أحمد:(20998)
سیدنا علی رضی الله عنہ کی داڑھی طویل، گھنی تھی۔
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﻟﻔﻀﻞ ﺑﻦ ﺩﻛﻴﻦ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻳﻮﻧﺲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﻋﻠﻴﺎ ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻲ ﺃﺑﻲ ﻗﻢ ﻳﺎ ﻋﻤﺮﻭ ﻓﺎﻧﻈﺮ ﺇﻟﻰ ﺃﻣﻴﺮ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ. ﻓﻘﻤﺖ ﺇﻟﻴﻪ ﻓﻠﻢ ﺃﺭﻩ ﻳﺨﻀﺐ ﻟﺤﻴﺘﻪ. ﺿﺨﻢ اﻟﻠﺤﻴﺔ
الطبقات الكبرى:3/ 18 صحيح
مزيد دیکھیے الطبقات الکبری:3/ 18،19
ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﻟﻔﻀﻞ ﺑﻦ ﺩﻛﻴﻦ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺵ ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﻗﺎﻝ:
ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﺻﺎﻟﺢ ( یہ ثقہ تابعی ذكوان الزيات ہیں) ﻛﺒﻴﺮ اﻟﻠﺤﻴﺔ ﻭﻛﺎﻥ ﻳﺨﻠﻠﻬﺎ،
الطبقات الکبری:6/ 299
كتب سته وغيره کے راوی ثقہ تابعی محارب بن دثار ( وفات:108 ھ) کی طویل داڑھی تھی۔
الثقات لابن حبان:(5679)
امام سفیان بن عیینہ کہتے ہیں:
ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺯﻫﻴﺮ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻳﻮﻧﺲ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﻣﺤﺎﺭﺏ ﺑﻦ ﺩﺛﺎﺭ ﻳﻘﻀﻲ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻭﻟﺤﻴﺘﻪ ﺑﻴﻀﺎء طويلة،
ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻣﻀﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻷﺳﺪﻱ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﺎﻣﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﻣﺤﺎﺭﺏ ﺑﻦ ﺩﺛﺎﺭ ﻳﻘﻀﻲ ﻓﻲ ﺟﺎﻧﺐ ﻣﺴﺠﺪ اﻟﻜﻮﻓﺔ ﺑﻴﻦ اﻟﻨﺎﺱ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻥ اﻟﻘﺴﺮﻱ ﺷﻴﺨﺎ ﻃﻮﻳﻞ اﻟﻠﺤﻴﺔ ﺃﺷﻬﺐ اﻟﻠﺤﻴﺔ ﻻ، أخبار القضاء:3/ 28 حسن، و صحيح
امام ابو حنیفہ سے منسوب اثر یہ ہے لکن وہ يقولون کہہ رہے اب یہ یقولون کہنے والے کون ہیں۔۔۔دوسرا امام ابو حنیفہ نے اس کے بعد ایک مثال بیان کی اور ایسا کہنے والوں کا رد کیا ہے۔
ﺛﻨﺎ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ اﻟﺴﻨﺪﻱ ﺛﻨﺎ اﻟﻤﺆﻣﻞ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻳﻘﻮﻝ ﻳﻘﻮﻟﻮﻥ ﻣﻦ ﻛﺎﻥ ﻃﻮﻳﻞ اﻟﻠﺤﻴﺔ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻟﻪ ﻋﻘﻞ ﻭﻟﻘﺪ ﺭﺃﻳﺖ ﻋﻠﻘﻤﺔ ﺑﻦ ﻣﺮﺛﺪ ﻃﻮﻳﻞ اﻟﻠﺤﻴﺔ ﻭاﻓﺮ اﻟﻌﻘﻞ،
الثقات:(15782) حسن
امام ابن حبان یزید الرشک(130 ھ) بارے کہتے ہیں عظيم اللحي
مشاھیر علماء الامصار(1201)
سیدنا عثمان غنی رضی الله عنه کی بڑی داڑھی تھی دیکھیے معرفۃ الصحابہ لابی نعیم:(223،224) یہی روایت طبرانی کبیر، الزھد والرقائق وغیرہ میں ہے سند میں ابن لھیعہ کا عنعنہ ہے لیکن اس طرح کی تاریخی روایات میں احادیث والا ضابطہ نہیں ہے۔اور اثر نمبر(225،226) سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
صحابہ کرام کا داڑھیاں باقی چھوڑنا اور مونچھیں کاٹنا
ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻷﺧﻨﺴﻲ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺵ ﻳﻘﻮﻝ: ﻟﻮ ﺭﺃﻳﺖ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺑﻦ اﻟﻤﻌﺘﻤﺮ، ﻭﺭﺑﻴﻊ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺭاﺷﺪ، ﻭﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﻨﺠﻮﺩ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ، ﻗﺪ ﻭﺿﻌﻮا ﻟﺤﺎﻫﻢ ﻋﻠﻰ ﺻﺪﻭﺭﻫﻢ، ﻋﺮﻓﺖ ﺃﻧﻬﻢ ﻣﻦ ﺃﺑﺰاﺭ اﻟﺼﻼﺓ، مسند على بن الجعدص:143 حسن
أحمد بن عمران الأخنسي مستقيم الحديث ہیں
الآحاد والمثانى:(1236 ) ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺤﻮﻃﻲ، ﻧﺎ اﺑﻦ ﻋﻴﺎﺵ، ﻋﻦ ﺷﺮﺣﺒﻴﻞ ﺑﻦ ﻣﺴﻠﻤﺔ، ﺭﺃﻳﺖ ﺧﻤﺴﺔ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺃﺑﺎ ﺃﻣﺎﻣﺔ اﻟﺒﺎﻫﻠﻲ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑﺴﺮ، ﻭﻋﺘﺒﺔ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺴﻠﻤﻲ، ﻭاﻟﺤﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ اﻟﺜﻤﺎﻟﻲ، ﻭاﻟﻤﻘﺪاﻡ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﻱ ﻛﺮﺏ اﻟﻜﻨﺪﻱ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻢ ﻳﻘﻤﻮﻥ ﺷﻮاﺭﺑﻬﻢ، ﻭﻳﻌﻔﻮﻥ ﻟﺤﺎﻫﻢ، ﻭﻳﺼﻔﺮﻭﻧﻬﺎ، ﻭﻛﺎﻧﻮا ﻳﻘﻤﻮﻥ ﻣﻦ ﻃﺮﻑ اﻟﺸﻔﺔ حسن،
ايضا:(2413 ) ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺤﻮﻃﻲ، ﺛﻨﺎ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺵ، ﻋﻦ ﺷﺮﺣﺒﻴﻞ ﺑﻦ ﻣﺴﻠﻢ، ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﺧﻤﺴﺔ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻤﻮﻥ ﺷﻮاﺭﺑﻬﻢ ﻭﻳﻌﻔﻮﻥ ﻟﺤﺎﻫﻢ ﻭﻳﺼﻔﺮﻭﻧﻬﺎ. ﺃﺑﻮ ﺃﻣﺎﻣﺔ اﻟﺒﺎﻫﻠﻲ ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑﺴﺮ اﻟﻤﺎﺯﻧﻲ، ﻭﻋﺘﺒﺔ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺴﻠﻤﻲ، ﻭاﻟﺤﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ اﻟﺜﻤﺎﻟﻲ، ﻭاﻟﻤﻘﺪاﻡ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﻱ ﻛﺮﺏ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻢ ﻛﺎﻧﻮا ﻳﻘﻤﻮﻥ ﻣﻊ ﻃﺮﻑ اﻟﺸﻔﺔ حسن،
طبرانی کبیر:(3218 ) ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻮﻫﺎﺏ ﺑﻦ ﻧﺠﺪﺓ اﻟﺤﻮﻃﻲ، ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻲ، ﺛﻨﺎ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺵ، ﻋﻦ ﺷﺮﺣﺒﻴﻞ ﺑﻦ ﻣﺴﻠﻢ، ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﺧﻤﺴﺔ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻤﻮﻥ ﺷﻮاﺭﺑﻬﻢ ﻭﻳﻌﻔﻮﻥ ﻟﺤﺎﻫﻢ ﻭﻳﺼﺮﻭﻧﻬﺎ: ﺃﺑﺎ ﺃﻣﺎﻣﺔ اﻟﺒﺎﻫﻠﻲ، ﻭاﻟﺤﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ اﻟﺜﻤﺎﻟﻲ، ﻭاﻟﻤﻘﺪاﻡ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﻳﻜﺮﺏ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑﺴﺮ اﻟﻤﺎﺯﻧﻲ، ﻭﻋﺘﺒﺔ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺴﻠﻤﻲ، ﻛﺎﻧﻮا ﻳﻘﻤﻮﻥ ﻣﻊ ﻃﺮﻑ اﻟﺸﻔﺔ حسن، وايضا الآحاد والمثانی:(2436) حسن ومعرفة الصحابة:(1951) وطبرانی کبیر:20/ 262 حسن ومسند الشامیین:(540) السنن الکبریٰ للبیھقی:(698)حسن
شرح معانی الآثار(6565 )ﻣﺎ ﻗﺪ ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻘﻴﻞ, ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﻭﻫﺐ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺵ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺧﺎﻟﺪ ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻭﻭاﺛﻠﺔ ﺑﻦ اﻷﺳﻘﻊ ﻳﺤﻔﻴﺎﻥ ﺷﻮاﺭﺑﻬﻤﺎ ﻭﻳﻌﻔﻴﺎﻥ ﻟﺤﺎﻫﻢا ﻭﻳﺼﻔﺮاﻧﻬﺎ ﻗﺎﻝ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ:
وایضا(6566 )ﻭﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺭاﻓﻊ اﻟﻤﺪﻧﻲ ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻭﺃﺑﺎ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻭﺃﺑﺎ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺨﺪﺭﻱ ﻭﺃﺑﺎ ﺃﺳﻴﺪ اﻟﺴﺎﻋﺪﻱ ﻭﺭاﻓﻊ ﺑﻦ ﺧﺪﻳﺞ ﻭﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻭﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻭﺳﻠﻤﺔ ﺑﻦ اﻷﻛﻮﻉ ﻳﻔﻌﻠﻮﻥ ﺫﻟﻚ،
اسماعیل بن عیاش کی روایت اگرچہ غیر شامیوں سے ضعیف ہوتی ہے مگر موافقت میں بیان کی جا سکتی ہے کہ دیگر آثار سے اس کی موافقت وتائید ہوتی ہے۔
نوٹ:ایک حدیث مبارک کے الفاظ سے نبی مکرم صلی علیہ وسلم کی داڑھی قدرے لمبی ہونا معلوم ہوتا ہے،
قد ملأت لحيته من هذه إلى هذه حتى كادت تملأ نحره (مصنف ابن أبى شيبة:31809،مسند احمد:3410،تاريخ المدينة لابن شبة:2/ 610،الطبقات الکبری:1/ 320 حسن،
يزيد الفارسى حسن الحديث راوی ہیں امام ابو حاتم الرازی نے کہا:وكذلك صاحب ابن عباس لا بأس به الجرح والتعديل:9/ 294 امام ابن حبان نے الصحیح:(43) میں روایت لی اور الثقات میں ذکر کیا امام ترمذی نے توثیق ضمنی کر دی ( سنن ترمذى:3086)ابن حزم نے المحلی:5/ 344میں جرح کیے بغیر روایت لی امام حاکم نے تصحیح کے ذریعے توثیق کر دی ہے مستدرک حاکم(2875،3272) حافظ مقدسی نے الأحاديث المختارة:1/ 494،495 میں روایت لی ،حافظ ہیثمی نے اس روایت کے بعد کہا رواه أحمد ورجاله ثقات مجمع الزوائد:14019 نیز یہ الگ بحث ہے کہ یزید بن ھرمز ہی یزید الفارسی ہے یا یہ دو الگ الگ راوی ہیں کبار ائمہ میں اس بارے اختلاف ہے اور ہم نے یہاں تفصیل راجح کیا ہے سے بچتے ہوئے صرف ایک پہلو ہی بیان کیا ہے ) جو داڑھی سینے کے بھلائی حصے کو بھرے ہوئے ہو وہ درمیانی داڑھی ہوتی ہے کیونکہ مختصر داڑھی سینے تک نہیں آتی ایک حدیث میں باضطراب لحيته ( صحیح بخاری وغیرہ) آیا ہے اور داڑھی کے ہلنے کا معلوم ہونا تبھی ممکن ہے جب وہ لمبی ہو۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ