الشفا اسپتال کو ایک گھنٹے میں خالی کرنے کا نادر شاہی حکم جاری ہوا۔ ڈاکٹر بہت سے مریضوں کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر باہر لے گئے۔ کٹے پھٹے اور لخت لخت 120 مریض اب بھی اس تاریک اسپتال میں موجود تھے، جن کی نگہداشت پر مامور ڈاکٹر ھمام اللوح نے کہا کہ اسپرین کی گولی تو دور کی بات، مجھے سارے دن کیلئے پانی کی ایک درجن بوتلیں ملتی ہیں، جن سے میں 120 مریضوں کی پیاس بجھاتا ہوں۔ میرے بعض مریض اشاروں سے مجھے کہتے ہیں کہ ہمارے مر جانے کی دعا کرو، لیکن ایک مسیحا یہ کیسے کر سکتا ہے، میں آج بھی اپنے مریضوں کی شفا کیلئے پرامید اور دعاگو ہوں۔

غزہ کے لوگ جس بے جگری سے ظلم و جبر کے آگے کھڑے ہیں، اس میں وہاں موجود ڈاکٹروں اور طبی عملے کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس سلسلے میں جوان سال ڈاکٹر ھمام اللوح نے عزم و ایثار کی ایک تاریخ رقم کی ہے۔ الشفا میں تعینات ڈاکٹر حمام صاحب امریکی تعلیم یافتہ ماہر امراض گردہ (Nephrologist) تھے۔ اس ماہ کے آغاز پر اسرائیلی طیاروں نے پمفلٹ گرائے، جس میں کہا گیا تھا کہ الشفا اسپتال دہشت گردوں کا مرکز ہے۔ تمام غیر متعلقہ افراد یہاں سے نکل جائیں، ورنہ اپنے نقصان کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ جب ڈاکٹر حمام سے ایک خاتون صحافی نے کہا کہ اب جبکہ دوائیں ختم ہو چکی ہیں اور کسی قسم کا علاج ممکن نہیں تو آپ اسپتال میں رہ کر اپنی جان کیوں خطرے میں ڈال رہے ہیں؟ یہ سن کر ڈاکٹر ھمام نے بہت ہی پرسکون لہجے میں کہا کہ میں نے طب کی تعلیم پر 14 سال لگائے ہیں اور میڈیکل کالج میں داخلے کے وقت حلف اٹھایا تھا کہ میں علاج کیلئے ہمیشہ کمربستہ رہوں گا۔ کیا میں اپنے اس عہد کو توڑ دوں؟ میرے پاس دوا نہیں، لیکن میں اپنے مریضوں کی پیشانیاں سہلا کر دلاسہ تو دے سکتا ہوں۔ مرہم پٹی میں نرسوں کی مدد کر سکتا ہوں۔ معذور مریضوں کے بول و براز صاف کرسکتا ہوں۔ میں اپنے مریضوں کو تنہا نہیں چھوڑوں گا کہ یہ وعدہ خلافی ہوگی۔ یہ زندگی تو ایک دن ختم ہونی ہی ہے۔ میں گناہ گار ہوں، لیکن وعدہ شکن بن کر اپنے رب سے نہیں ملوں گا کہ میں نے اسے حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھایا تھا۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر ھمام کے آنسو جاری ہوگئے۔ ہمارے رب نے اس نوجوان ڈاکٹر کے عہد کی لاج کچھ اس طرح رکھی کہ اسی رات وہ اسپتال سے متصل اپنے گھر میں والد، سسر اور برادر نسبتی کے ساتھ اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن کر جام شہادت پی گئے۔ ان کے احباب کا خیال ہے ڈاکٹر ھمام ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ اس لئے کہ اس سے ایک دن پہلے بھی ان کے گھر پر بمباری ہوئی، جس سے گھر کا آدھا حصہ تباہ ہوگیا، لیکن کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ اس کے بعد ڈاکٹر ھمام کی والدہ، اہلیہ اور بچے اسی گھر کے بچے ہوئے حصے میں سمٹ آئے، جبکہ ڈاکٹر صاحب قریب ہی اپنے سسرال منتقل ہوگئے، جہاں انہیں نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹر ھمام نے پسماندگان میں جوانسال بیوی، ضعیف ماں اور دو بچے چھوڑے ہیں۔ ان نونہالوں کی عمر 4 اور 5 سال ہے۔ خوبرو ڈاکٹر ھمام کو بھی اپنی شہادت کا شاید یقین ہوگیا تھا۔ ان کی آخری وصیت نے بھی عرب سوشل میڈیا صارفین کو رلا دیا۔ انہوں نے شہادت کی رات اپنی آخری فیس پوسٹ میں لکھا:
’’بالله عليكم.. حين يتوفاني الله، سامحوني واستروا عيوبي، وادعوا لي بالرحمة و المغفرة، وتذكروني دائما بالخير۔‘‘
(تمہیں اللہ کا واسطہ، جب میں شہید ہوجاؤں تو میرے ساتھ درگزر کا معاملہ کرو، میرے عیوب پر پردہ ڈالو، میرے لئے اللہ کی رحمت اور مغفرت کی دعا کرو اور مجھے ہمیشہ بھلائی کے ساتھ یاد رکھو)

ضیاء چترالی