داتا کون؟

ہمارے معاشرے میں کئی لوگ انبیاء، شہداء، صالحین، اولیاء اور یہاں تک کہ جہلاء کو داتا دستگیر، حاجت روا، مشکل کشا، غریب نواز اور بندہ نواز مانتے ہیں، داتا کا معنی عطا کرنے والا، یاد رہے کہ رزق، عزت، ذلت، اولاد اور ہر چیز عطاء کرنے والی ذات اللہ کی ہے۔ ہم یہاں چند قرآنی آیات ذکر کرتے ہیں، جن آیات میں یہ بات واضح ہے کہ عزت، اولاد اور رزق اللہ کی عطا ہے۔ یہ کسی نبی، ولی، پیر و فقیر اور مرشد کا کام نہیں، کسی کے اوپر کتنا بڑا لیبل کیوں نہ لگا ہوا ہے، لیکن وہ اللہ کے در کا فقیر ہے۔ آج کل ہمارے ہاں جو شرکیہ ماحول ہے، اس پر کیا کہا جائے، عجیب و غریب شرکیہ الفاظ عام ہیں، لوگوں نے انسانوں کو خالق کا درجہ دیا ہوا ہے، یہاں ہر کام کے لیے الگ در کی تلاش ہے، کوئی اولاد دیتا ہے، کوئی مصیبتیں ٹالتا ہے، کوئی رزق دیتا ہے، کوئی بیماریوں سے شفاء دیتا ہے، ہائے مسلمان تیرے عقیدے کا کیا کہنا تو خالق حقیقی کو بھول گیا، یاد رہے کہ کامیاب وہ شخص ہے، جس نے اپنے خالق حقیقی کو پہنچانا۔ فقر ہو، تنگدستی ہو یا خوشحالی ہو، مصیبتیں ہوں، تکالیف ہوں، غم و پریشانیوں کا سامنا ہو، خوشی ہو یا غمی ہو، ان کے ہاتھ صرف اللہ کے سامنے اٹھتے ہیں، وہ اپنی التجائیں اپنے رب کے سامنے رکھتے ہیں، دنیا و جہاں کے غم رو رو کر اپنے حقیقی خالق کو بتاتے ہیں، انہی لوگوں کے اوپر رحمٰن کی رحمت برستی ہے، ان کے حق میں آسمان سے نصرت و تائید اترتی ہے، ان کے دلوں میں سکینت نازل ہوتی ہے، ان موحدین کے لیے رحمٰن نے جنت کے وعدے کیے ہوئے ہیں، یہ بڑے خوشحال لوگ ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوتے ہیں۔

(1) “عزت و ذلت کا مالک صرف اللہ”
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الۡمُلۡكِ تُؤۡتِى الۡمُلۡكَ مَنۡ تَشَآءُ وَتَنۡزِعُ الۡمُلۡكَ مِمَّنۡ تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ‌ ؕ بِيَدِكَ الۡخَيۡرُ‌ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ” [آل عمران: 26]

«کہہ دے اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بے شک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے»

(2) “اولاد اللہ کی عطا ہے”
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“لِّـلَّـهِ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ‌ؕ يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ‌ ؕ يَهَبُ لِمَنۡ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّيَهَبُ لِمَنۡ يَّشَآءُ الذُّكُوۡرَ ۞
اَوۡ يُزَوِّجُهُمۡ ذُكۡرَانًا وَّاِنَاثًا‌ ۚ وَيَجۡعَلُ مَنۡ يَّشَآءُ عَقِيۡمًا‌ؕ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌ قَدِيۡرٌ” [الشورى: 49,50]

«آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے، یا انھیں ملا کر بیٹے اور بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے، یقینا وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے»

(3) “رزق کی کنجیاں رب کے ہاتھ میں ہیں”
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الۡقُوَّةِ الۡمَتِيۡنُ” [الذاريات: 58]

«بے شک اللہ ہی بے حد رزق دینے والا، طاقت والا، نہایت مضبوط ہے»

(4) “خیر و بھلائی اللہ کے ہاتھ میں ہے”
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“يُّرِدۡكَ بِخَيۡرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضۡلِهٖ‌ ؕ يُصِيۡبُ بِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ‌ ؕ وَهُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ” [يونس: 107]

«اور اگر وہ تیرے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرلے تو کوئی اس کے فضل کو ہٹانے والا نہیں، وہ اسے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے پہنچا دیتا ہے اور وہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے»

(5) “اللہ کے محبوب بندے بھی درِ الٰہی کے محتاج”

(1) موسی علیہ السلام
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“فَقَالَ رَبِّ اِنِّىۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَىَّ مِنۡ خَيۡرٍ فَقِيۡرٌ” [القصص: 24]

«اور موسی علیہ السلام نے کہا اے میرے رب! بے شک میں، جو بھلائی بھی تو میری طرف نازل فرمائے، اس کا محتاج ہوں»

(2) ابراھیم علیہ السلام
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“رَبِّ هَبۡ لِىۡ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ” [الصافات: 100]

«اے میرے رب! مجھے (لڑکا) عطا کر جو نیکوں سے ہو»

(3) زکریا علیہ السلام
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“وَ زَكَرِيَّاۤ اِذۡ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرۡنِىۡ فَرۡدًا وَّاَنۡتَ خَيۡرُ الۡوٰرِثِيۡنَ‌” [الأنبياء: 89]

«اور زکریا کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو ہی سب وارثوں سے بہتر ہے»

(4) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“وَ قُلْ رَّبِّ زِدۡنِىۡ عِلۡمًا”

«اور آپ کہہ دیں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں زیادہ کر»

(6) “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امت کو داتا کا درس”
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام وراد بیان کرتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو یہ کہا کرتے تھے:

“لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ”

«اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کے لیے ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اے اللہ! جو کچھ تو نے دیا ہے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو کچھ تو نے روک دیا اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی مالدار اور نصیبہ ور (کو تیری بارگاہ میں) اس کا مال نفع نہیں پہنچا سکتا» [صحيح البخاري: 6330]

(7) “کائنات کا ہر انسان درِ خداوندی کا محتاج”
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِۚ وَاللّٰهُ هُوَ الۡغَنِىُّ الۡحَمِيۡدُ” [فاطر: 15]

«اے لوگو! تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بے پروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے»

(8) “کیا مردے داتا ہو سکتے ہیں؟ وحی کا فیصلہ”

وَالَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَخۡلُقُوۡنَ شَيۡـئًا وَّهُمۡ يُخۡلَقُوۡنَؕ ۞ اَمۡوَاتٌ غَيۡرُ اَحۡيَآءٍ‌ ۚ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَ اَيَّانَ يُبۡعَثُوۡنَ [النحل: 20،21]

«اور وہ لوگ جنھیں وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ مردے ہیں، زندہ نہیں ہیں اور وہ نہیں جانتے کب اٹھائے جائیں گے»

(9) “درِ الٰہی کھلا ہے، مانگنے والے بنو”
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“وَقَالَ رَبُّكُمُ ادۡعُوۡنِىۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَـكُمۡؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِىۡ سَيَدۡخُلُوۡنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِيۡنَ” [غافر: 60]

«اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے»

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“وَاِذَا سَاَلَـكَ عِبَادِىۡ عَنِّىۡ فَاِنِّىۡ قَرِيۡبٌؕ اُجِيۡبُ دَعۡوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلۡيَسۡتَجِيۡبُوۡا لِىۡ وَلۡيُؤۡمِنُوۡا بِىۡ لَعَلَّهُمۡ يَرۡشُدُوۡنَ” [البقرة: 186]

«اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں»

تحریر: افضل ظہیر جمالی

یہ بھی پڑھیں: یوٹیوب کو کیسے مفید بنایا جا سکتا ہے؟