ہر نئی آنے والی چیز ہمیشہ پُرکشش ہوا کرتی ہے۔ خصوصاً جذبات کی رو میں بہہ جانے والے اور منفی سوچ کے حامل افراد جو ہر بات کو اپنے بنائے ہوئے سانچے میں ڈالنا چاہتے ہیں ان کے لیے تو ایسی باتیں سونے پہ سہاگہ ہوا کرتی ہیں. عام ڈگر سے ہٹ کر چلنے والے یہ من موجی حضرات چونکہ بقول میر:
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
جیسی افتاد طبع کے مالک ہوتے ہیں اس لیے جہاں کسی کی بات طبعِ نازک پہ گراں گزری دھڑلے سے اس کے علم وعمل اور فکر و نظر کی نفی کردی اور اپنے جیسوں کو جمع کرکے مخصوص انداز میں کچھ اس ادا سے منفی تبصروں کی فضا قائم کی جاتی ہے کہ شریف طبع اور کم گو شخص خاموشی میں عافیت جانتے ہوئے خلوت نشیں ہونے کو ترجیح دیتا ہے اور صاحبان اپنی فتح پر خوب بغلیں بجاتے ہیں۔
ایسے وقت میں ذی شعور افراد کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے…انہیں چاہیے کہ ہر آنے والی نئی پُرکشش بات کو قرآن و سنت پر پرکھیں اور تاریخی تناظر میں دیکھیں کہ ماضی میں جب جب اس طرح کی تحریکیں بپا کی گئیں یا اس انداز سے دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا گیا تو اس کے مثبت و منفی کیا کیا اثرات مرتب ہوئے تھے نیز جو افراد روحِ رواں ہیں اور جو جو متاثرین ہیں ان کے مزاج سے بھی آشنائی حاصل کی جائے کہ ان کی ذہنی ساخت ناپختگی کے کن کن مراحل سے گزر کر بظاہر پختہ دکھائی دیتی ہے…جب ان امور پر ثقہ اہلِ علم سے تبادلہ خیال کرکے انشراحِ صدر ہو جائے تو مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر اپنے حلقہ احباب میں ان کے بارے میں گفتگو کرنی پڑے تو جچے تلے انداز اور مناسب الفاظ میں علمی تردید کی جائے جو کہ اسلاف کا خاصہ رہا ہے…اگر کوئی نہیں مانتا تو سمجھ لیں کہ آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے…جب وقت آنے پر درست اور نادرست کی نشان دہی ہو جائے گی تو اپنے اور غیروں کے موقف کا راجح و مرجوح ہونے کا پتا چل جائے گا۔
آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علامہ عبد الرحمٰن بن محمد بن قاسم رحمہ اللہ کا کہا نقل کیا جائے جو آپ نے
” کتاب التوحيد ” کے باب ” الدعاء إلى شهشدة ان لا اله الا الله” کے تحت حاشیے میں لکھا ہے:
” لا بد في الدعوة إلى الله بشرطين :
1 : ان تكون خالصة لوجه الله.
2 : ان تكون وفق سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم.
فإن اخل الداعي بالشرط الأول كان مشركا، وان أخل بالثاني كان مبتدعا.
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کی دو ( بنیادی) شرطیں ہیں:
1 :(دعوت) خالص اللہ کی رضا کے لیے دی جائے۔
2 : (دعوت) نبی کریم صلی الله علیه و سلم کے طریقے کے مطابق دی جائے۔
اگر داعي نے پہلی شرط میں خرابی پیدا کی تو مشرک کہلائے گا اور اگر دوسری شرط میں کوتاہی کا مرتکب ہوا تو بدعتی ہو جائے گا۔
حافظ عبد العزيز آزاد