سوال (4517)
اگر ایک بندہ مکان کرایہ پر دیتا ہے، 6000 مہینہ اور کرایہ دار کو بولتا ہے کہ اگر مجھے ایک ساتھ پورے سال کے پیسے دے دو تو میں دو مہینہ کا کرایہ معاف کر دوں گا؟ مطلب اگر ہر ماہ وہ کرایہ دے گا تو اس کو 72 ہزار دینا ہوگا۔ اور اگر وہ ایک ساتھ ابھی پورے سال کا کرایہ دیتا ہے تو اسکو 60 ہزار دینا پڑے گا، کیا یہ ڈیل صحیح ہے؟
جواب
بیع سلف/ سلم ہی ہے؛ جائز ہے، کوئی حرج نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث علی اکبر حفظہ اللہ
اس طرح نقد سودا کرتے ہوئے فل پیمینٹ دینے پر ڈسکاؤنٹ ملتا ہے، یہ جائز ہے، اس طرح اس نے ایڈوانس کرایا دے کر دو مہینے کی چھوٹ لے لی ہے اور پیسے کم کروا لیے ہیں، لہذا ٹھیک ہے کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
ارشادِ باری تعالیٰ:
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ”
“اے ایمان والو! معاہدوں کو پورا کرو”(سورہ المائدہ: 1)
یہ آیت تمام جائز معاہدات کو پورا کرنے کا حکم دیتی ہے، بشرطیکہ وہ معاہدے شرعی اصولوں کے مطابق ہوں۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد:
المسلمون على شروطهم، إلا شرطاً أحل حراماً أو حرّم حلالاً،
مسلمان اپنی شرطوں پر قائم رہتے ہیں، سوائے اس شرط کے جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر دے”_(سنن ترمذی: 1352)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باہمی رضامندی سے کی گئی جائز شرطیں قابلِ قبول ہیں۔
فقہاء نے اجارہ (کرایہ داری) کے معاملے میں یہ اصول بیان کیا ہے کہ اگر کرایہ دار پیشگی ادائیگی کرے اور مالک مکان اسے رعایت دے، تو یہ جائز ہے،
بشرطیکہ:
1) معاہدہ کے وقت یہ شرط واضح طور پر طے ہو۔
2) دونوں فریقین کی رضامندی شامل ہو۔
3) معاہدہ میں کوئی دھوکہ یا ابہام نہ ہو۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: پیشگی ادائیگی پر رعایت دینا جائز ہے، بشرطیکہ یہ بات معاہدہ کے وقت طے ہو۔”
لہذا یہ جائز ہے
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ