سوال (1436)

معزز علماء كرام کی خدمت میں سوال عرض ہے کہ ڈیبٹ کارڈ پر ملنے والی رعایت کا کیا حکم ہے؟
تفصیل یہ ہے کہ
(1) : اگر یہ رعایت بینک کی جانب سے اصل عقد میں مشروط ہو تو کیا حکم ہے اور اگر اصل عقد میں مشروط نہ ہو پھر کیا حکم ہے؟
(2) : اگر یہ رعایت دکاندار یا کمپنی کی طرف سے ہو تو پھر اس کا حکم کیا ہے؟

جواب

ڈیبٹ کارڈ (Debit Card) بنوانا اور اس کا استعمال کرنا فی نفسہ جائز ہے، کیونکہ اس کے حاصل کرنے کے لیے سودی معاہدہ نہیں کرنا پڑتا، بلکہ اس کارڈ کے ذریعہ آدمی اتنے ہی پیسوں کی خریداری کر سکتا ہے جتنی رقم اس کے اکاؤنٹ میں موجود ہے، یعنی اس میں قرض والا معاملہ شروع سے ہوتا ہی نہیں ہے، اس لیے سود لینے دینے کی نوبت ہی نہیں آتی۔
لہٰذا اس کا استعمال تو جائز ہے، لیکن اس ڈیبٹ کارڈ کے ذریعہ ادائیگی کی صورت میں اگر کچھ پیسوں کی رعایت (Discount) ملے تو معلوم کرنا چاہیے کہ وہ رعایت (Discount) بینک کی طرف سے ملتی ہے یا جہاں سے خریداری کی ہے اس متعلقہ ادارے کی طرف سے ہے؟
اگر یہ رعایت بینک کی طرف سے ملتی ہو یعنی بل میں جتنے پیسوں کی رعایت کارڈ ہولڈر کے ساتھ کی گئی ہو وہ اس کی طرف سے بینک ادا کرتا ہو تو اس صورت میں وہ رعایت (Discount) حاصل کرنا شرعاً ناجائز ہوگا، کیونکہ یہ رعایت بینک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی وجہ سے مل رہی ہے جو شرعاً قرض کے حکم میں ہے اور جو فائدہ قرض کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے وہ سود کے زمرے میں آتا ہے، چاہے مشروط ہو یا نہ ہو۔
اس لیے بینک سے کسی قسم کا مالی فائدہ اُٹھانا سودی پیسوں سے فائدہ اُٹھانے کے مترادف ہونے کی وجہ سے بھی ناجائز ہے۔
لیکن اگر یہ رعایت متعلقہ ادارے کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو ملتی ہو تو یہ ان کی طرف سے رعایت تعاون ہونے کی وجہ سے جائز ہوگا۔
البتہ اگر یہ بات پتا نہ چل سکتی ہو کہ یہ رعایت کارڈ ہولڈر کو بینک یا متعلقہ ادارے کی طرف سے ملتی ہے تو چونکہ زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ یہ رعایت مکمل طور پر یا جزوی طور پر بینک کی طرف سے ہی ملتی ہے، اس لیے اس رعایت کو حاصل کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہی ہو گا۔

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ

سائل :
ایک بات کی مذید وضاحت درکار ہے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ قرض کے اوپر غیر مشروط نفع بھی سود ہے ، جبکہ اس کا مطالبہ بھی نہیں کیا گیا تھا ؟
جواب :
قرض یا ادھار کے عوض کوئی بھی فائدہ اٹھانا سود ہے۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے، انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
“تو ایسی سرزمین (عراق) میں رہتا ہے جہاں سود کی وباء عام ہے، لہٰذا اگر تیرا کسی شخص کے ذمے کوئی حق ہے تو اس سے توڑی یا چارے کا گٹھا یا جَو وغیرہ بطور ہدیہ قبول نہ کرنا کیونکہ یہ سود ہے۔”
[ صحیح البخاری ، المناقب: 3814]
اس حدیث سے معلوم ہوا قرض مشروط یا غیر مشروط فائدہ حاصل کرنا سود کے زمرے میں آتا ہے۔

فضیلۃ العالم عبد الرحیم حفظہ اللہ

سائل :
شيخنا مندرجہ ذیل حدیث کی پھر کیا توجیہ ہوگی؟
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک آدمی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سوال کرنے کے لیے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے نصف وسق ادھار لیا اور ا‏‏‏‏س کو دے دیا۔ جب (‏‏‏‏قرض خواہ) آدمی اپنا قرضہ لینے کے لیے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (‏‏‏‏آدھا وسق کی بجائے) پورا وسق دے دیا اور فرمایا: ”نصف وسق تیرا قرضہ چکانے کے لیے دیا اور آدھا تجھے میری طرف سے عطیہ ہے۔“
[‏‏‏‏أخرجه البيهقي في السنن : 5/351 ، و شعب الإيمان 7/531/11237]
اس کے علاوہ بھی اس معنی میں صحیح احادیث ہیں۔
جواب :
یہ وہاں ہے جہاں سودی لین دین نہیں ہے تو ایک دوسرے کے ساتھ احسان کیا جا سکتا ہے۔
لیکن جہاں سودی لین دین عام چلتا ہو احسان نام کا تصور ہی نہ ہو وہاں مشروط اور غیر مشروط فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ