سوال (537)
کیا دین اسلام میں چھ کلموں کی کوئی حیثیت ہے ؟
جواب
چھ کلموں کا اس ترتیب اور عدد سے کوئی وجود اور ثبوت نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
یہ چھ کلمے لوگوں نے بنا رکھے ہیں ، ان چھ کلموں کا احناف نے بھی انکار کر دیا ہے ، باقی کچھ کلمات ہیں جو دعا کی شکل میں مل جاتے ہیں تو اسی بنا پر پورے پورے کلمے بنا دیے گئے ہیں ۔
کلمہ تو صحیح معنوں میں ایک ہی ہے جو نبی علیہ السلام نے اپنے چاچا کے اوپر پیش کیا تھا ۔
سیدنا مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت وہاں ابوجہل بھی بیٹھا ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَيْ عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ .
چچا! کلمہ لا الہٰ الا اللہ ایک مرتبہ کہہ دو، اللہ کی بارگاہ میں آپ کی بخشش کے لیے ایک یہی دلیل میرے ہاتھ آجائے گی ۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: اے ابوطالب! کیا عبدالمطلب کے دین سے تم پھر جاؤ گے! یہ دونوں ان ہی پر زور دیتے رہے اور آخری کلمہ جو ان کی زبان سے نکلا، وہ یہ تھا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں۔
(صحيح البخاري : 3884)
“لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ”
ان الفاظ کے ساتھ یہ کلمہ ہے ۔
جس کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے ۔
اَلۡزَمَهُمۡ كَلِمَةَ التَّقۡوٰى (سورة الفتح: 26)
اس آیت میں “كَلِمَةَ التَّقۡوٰى” کی تفاسیر میں یا کتاب الایمان جو امام ابن مندہ کی ہے ، اس میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کا قول موجود ہے کہ اس آیت میں “كَلِمَةَ التَّقۡوٰى” سے مراد “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” ہے ۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ کلمہ صرف “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” ہے اور یہی کلمہ توحید ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
باقی اس حوالے سے ایک مفید تحریر ہے، جس کے کاتب کا علم نہیں، اس لیے بلا نام ذکر کیے بغرض افادہ اسے یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
“مشہور چھ کلمے”
مشہور چھ کلمے اور ان کے ناموں کی حقیقت درج ذیل ہے۔
1- پہلا کلمہ طیب۔
2- دوسرا کلمہ شہادت۔
3- تیسرا کلمہ تمجید۔
4- چوتھا کلمہ توحید۔
5- پانچواں کلمہ استغفار۔
6- چھٹا کلمہ رد کفر۔
ان چھ میں سے کسی ایک کلمے کا نام بھی قرآن وحدیث میں موجود نہیں، یہ غیر معروف ہیں اور بہت بعد میں کسی نے ان ناموں کو ترتیب دیا ہے۔
ان چھ کلموں کی ترتیب اور الفاظ کی شرعی حیثیت درج ذیل ہے۔
1: پہلا کلمہ طیب:
لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ۔
ترجمہ:“ اللہ کےسوا کوئی عبادت کےلائق نہیں-
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں-”
یہ کلمات کئی احادیث مبارکہ سے آدھے یا مکمل ثابت ہیں، مگر ان کلمات کو حدیث میں کلمہ طیب کی بجائے “كلمة التقوى” کے نام سے ذکر کیا گیا ہے اور کئی روایات میں ان کلمات کو پڑھنے کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے۔
چند ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تکبر کرنےوالی ایک قوم کا ذکر کیا ہے-
یقینا جب انہیں “لاإِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ” کہا جاتا ہے تو تکبر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
کہ “جب کفر کرنےوالوں نےاپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تو اللہ نے اپنا سکون واطمینان اپنے رسول اور مومنوں پر اتارا اور انکے لئے کلمة التقوی کو لازم قرار دیا اور اس کے زیادہ مستحق اور اہل تھے-”
اور وہ (کلمة التقوی) ہے۔ ”لّا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ”
حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت (مقرر کرنے) والے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیا تھا تو مشرکین نے اس کلمہ سے تکبر کیا تھا۔
( صحيح ابن حبان: 218)، (الألباني صحيح الترمذي 3265، صحيح)
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(افضل ترین ذکر “لاإِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ” اور افضل ترین دعا “الحمد للہ” ہے۔ (سنن ترمذی رقم:3383)
اس روایت کو ابن حبان نے “صحیح ابن حبان” (3/126) میں روایت کرتے ہوئے عنوان قائم کیا: “باب ہے اس بیان میں کہ الحمد للہ [یعنی: اللہ تعالی کی حمد] افضل ترین دعا ہے اور لا الہ الا اللہ افضل ترین ذکر ہے”۔ اس حدیث کو ابن حجر رحمہ اللہ نے ” (نتائج الأفكار-1ج/ص63) میں اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے “صحیح ترمذی” میں حسن قرار دیا ہے۔
2: دوسرا کلمہ جسے شہادت کہا جاتا ہے جو کہ ایمان کا لفظی اقرار ہے۔
اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ، وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ۔
یہ کلمات الفاظ کی کمی بیشی کےساتھ کچھ احادیث سےثابت ہیں، مگر احادیث میں ان کو کلمہ شہادت کی بجائے وضو کے بعد پڑھی جانے والی دعا اور عام اذکار سے منسوب کیا گیا ہے اور اسکے پڑھنے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔
چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے، پھر وضو سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھے:
(أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُه)
کہمیں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
تو اس شخص کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جائیں گے، وہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔ (صحیح مسلم، رقم:243)
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو شخص دن بھر میں سو مرتبہ یہ دعا پڑھے گا-
(لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ ، لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ)
ترجمہ: کہ نہیں ہے کوئی معبود، سوا اللہ تعالیٰ کے، اسکا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے اور تمام تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے-
تو پڑھنے والے کو دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا، سو نیکیاں اسکے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی اور سو برائیاں اس سےمٹا دی جائیں گی، اس روز دن بھر یہ دعا شیطان سےاسکی حفاظت کرتی رہےگی، تاوقتکہ شام ہو جائے اور کوئی شخص اس سے بہتر عمل لے کر نہ آئے گا- مگر جو اس سے بھی زیادہ یہ کلمہ پڑھ لے۔ (صحیح بخاری:3293)
3: تیسرا کلمہ تمجید درج ذیل ہے۔
سُبْحَانَ ﷲِ، وَالْحَمْد ﷲِ، وَلَآ اِلٰهَ اِلَّااللہُ، وَﷲُ اَکْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِ الْعَظِيْمِ۔
یہ کلمات اسی ترتیب کے ساتھ، سوم کلمہ تمجید کے نام سے کسی حدیث میں موجود نہیں ہے۔
ہاں البتہ یہ کلمات رات کو آنکھ کھلنے پر پڑھی جانے والی دعا کا ایک ٹکڑا ہیں، اسی طرح نماز تسبیح میں پڑھے جانے والے کچھ کلمات بھی اس میں سے ہیں اور اسی طرح دو الگ الگ مقام پر دو مختلف احادیث میں بھی یہ کلمات آئے ہیں۔
احادیث ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رات میں بیدار ہو اور آنکھ کھلتے ہی یہ دعا پڑھے۔
(لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ)
کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے حمد و ثنا ہے، وہی ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اللہ ہی سب سے بڑا ہے، طاقت و قوت اللہ بلند و برتر کی توفیق ہی سے ہے۔
پھر یہ دعا پڑھے۔ (رَبِّ اغْفِرْ لِي) کہ اے رب مجھ کو بخش دے۔
تو وہ بخش دیا جائے گا۔ ولید کہتے ہیں یا یوں کہا: اگر وہ دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہو گی اور اگر اٹھ کر وضو کرے، پھر نماز پڑھے تو اس کی نماز قبول ہو گی۔ (صحیح بخاری:1154)
سیدنا عبيدالله بن أبي أوفى کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہنے لگا کہ میں قرآن پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو آپ مجھے کچھ ایسا سکھا دیں جو مجھے قرآن کی جگہ کفائیت کر جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہو
(سُبحانَ اللهِ، والحَمدُ للهِ، ولا إلهَ إلّا اللهُ، واللهُ أكبرُ، ولا حَولَ ولا قوَّةَ إلّا بالله)
تو اس نے کہا یہ تو میرے اللہ کے لیے ہے۔ (یعنی اللہ کی تعریف ہے) میرے لیے کیا ہے (یعنی میں اپنے لیے کیا دعا مانگوں) فرمایا: تم کہو:
(اللَّهُمَّ اغفِرْ لي، وارحَمْني، واهدِني، وارزُقْني، وعافني) (سنن الدارقطني، رقم: 1195، حسن بطرقه)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: میں یہ کلمات کہوں:
(سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ)
کہ تو یہ میرے نزدیک ان سب اشیا سے زیادہ محبوب ہیں، جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔
(یعنی ساری دنیا سےزیادہ محبوب) (صحیح مسلم، رقم:2695)
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
اے عبداللہ بن قیس
“لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ”
کہا کرو کیونکہ یہ جنت کےخزانوں میں سےایک خزانہ ہے۔ (صحیح مسلم:2704)
4: چوتھا کلمہ جس کو توحید کہاجاتا ہے۔
(لَآ اِلٰهَ اِلاَّ ﷲُ وَحْدَهُ لَاشَرِيْکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْی وَيُمِيْتُ، وَهُوَ حَيٌّ لَّا يَمُوْتُ اَبَدًا اَبَدًا، ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ)
ان میں سےبعض الفاظ احادیث میں موجود کچھ دعاؤں میں مذکور ہیں، مگر یہ تمام کلمات اس ترتیب کے ساتھ اور اس نام کے ساتھ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔
چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص نماز فجر کے بعد جب کہ وہ پیر موڑے (دو زانوں) بیٹھا ہوا ہو اور کوئی بات بھی نہ کی ہو۔
«لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ»
دس مرتبہ پڑھے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کی دس برائیاں مٹا دی جائیں گی، اس کے لیے دس درجے بلند کئے جائیں گے اور وہ اس دن پورے دن بھر ہر طرح کی مکروہ و ناپسندیدہ چیز سے محفوظ رہے گا اور شیطان کے زیر اثر نہ آ پانے کے لیے اس کی نگہبانی کی جائے گی اور کوئی گناہ اسے اس دن سوائے شرک باللہ کے ہلاکت سے دوچار نہ کر سکے گا۔
(سنن ترمذی، رقم:3474) (و تراجع الشيخ الالباني عن تضعيفه، انظر : ”صحيح الترغيب” رقم: 474)، (السلسلة الصحيحة، رقم : 114 )
اسی طرح بازار میں داخل ہونے والی ایک دعا کے کلمات بھی کچھ اس طرح سے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بازار میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھی:
«لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ»
”نہیں کوئی معبود برحق ہے مگر اللہ اکیلا، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کے لیے ملک (بادشاہت) ہے اور اسی کے لیے حمد و ثناء ہے وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے، وہ زندہ ہے کبھی مرے گا نہیں، اسی کے ہاتھ میں ساری بھلائیاں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے“۔
تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور اس کی دس لاکھ برائیاں مٹا دیتا ہے اور اس کے دس لاکھ درجے بلند فرماتا ہے“۔ (سنن ترمذی، رقم:3428)
علامہ البانی نے اس روایت کو حسن کہا ہے، جبکہ دیگر کئی محدثین اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔ (مجموع فتاوى ابن باز ٢٦/٢٤٧ • ضعيف من الطريقين جميعاً)
5: پانچواں کلمہ اِستغفار:
(اَسْتَغْفِرُ ﷲَ رَبِّيْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُهُ عَمَدًا اَوْ خَطَاً سِرًّا اَوْ عَلَانِيَةً وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَآ اَعْلَمُ، اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُيُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ)
یہ الفاظ اس ترتیب کے ساتھ قرآن وحدیث میں کہیں بھی مذکور نہیں ہیں، خود سے بنائے گئی دعائے استغفار ہے۔
6: چھٹا کلمہ ردِّ کفر
(اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَيْئًا وَّاَنَا اَعْلَمُ بِهِ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَآ اَعْلَمُ بِهِ تُبْتُ عَنْهُ وَتَبَرَّاْتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ وَالْکِذْبِ وَالْغِيْبَةِ وَالْبِدْعَةِ وَالنَّمِيْمَةِ وَالْفَوَاحِشِ وَالْبُهْتَانِ وَالْمَعَاصِيْ کُلِّهَا وَاَسْلَمْتُ وَاَقُوْلُ، لَآ اِلٰهَ اِلَّا ﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُﷲِ-)
یہ تمام دعائیہ کلمات ہیں لیکن انکی یہ ترتیب اور کئی الفاظ قرآن و حدیث سےثابت نہیں اپنی مرضی سے مختلف الفاظ جوڑے ہوئے ہیں، اِن کا مصدر بھی نامعلوم ہے۔
اس ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان چھ کلموں کو برصغیر کے چند علماء نے مشہور کیا ہے، بجائے اسکے کہ لوگوں کو اصل دعائیں، انکی فضیلت اور صحیح احادیث بتائی جاتیں، بلکہ عوام میں اپنی مرضی سے دعاؤں اور احادیث کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے کلمے بنا دئیے اور پھر ان کلموں پر اس قدر سختی سے عمل کروایا کہ جہاں لوگوں میں ان غیر مسنون کلموں کی فرضیت مشہور ہو گئی وہیں ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ لوگ اصل دعاؤں، اذکار اور انکی فضیلت و اہمیت سے نا واقف رہے۔
ٹھیک اسی طرح جس طرح سورہ یٰس کی فضیلت میں اس قدر غلو سے کام لیا گیا اور ضعیف اور من گھڑت احادیث مشہور کر دی گئیں سورہ یسین کی فضیلت میں کہ نتیجۃً سورة البقرۃ اور سورة الکہف جیسی افضل سورۃ کو لوگوں نے نظر انداز کیا، جسکی وجہ سے لوگ صحیح احادیث سے ثابت شدہ فضائل سےبھی محروم ہو گئے۔
بلکل اسی طرح یہ مجوزہ چھ کلمے یاد کروانے میں شدت اور فضیلت میں غلو سےکام لیا گیا کہ ہمارےبچوں کی اکثریت سیدالاستغفار اور صبح شام کےمسنون اذکار سےمحروم ہو گئی۔
ان میں سے زیادہ تر صرف عربی میں بعض قرانی الفاظ پر مشتمل الله کی تعریف پر منبی کلمات ہیں جن کا کوئی شرعی ثبوت مذکورہ ترتیب اور مذکورہ اسماء کےساتھ نہیں ملتا، انکو جو یاد نہ کرے اس پر کوئی عیب نہیں اور ان کلمات میں جو الفاظ و دعائیں ہیں، ان میں سےجو حدیث میں موجود ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہیں، ان کو یاد کر سکتے ہیں۔
لیکن لوگوں میں یہ جو چیز باور کرائی جاتی ہے کہ نعوذ باللہ جس کو یہ چھہ کلمے یاد نہیں اسکا ایمان کمزور ہے، یاد رکھیں کلمے یاد ہونا یا نہ ہونا ایمان کا پیمانہ نہیں، نہ ہی اسکی کوئی اضافی فضیلت ہے، بلکہ سرے سے ان کلموں کا کوئی وجود ہی نہیں، لہذا ان کو فرض بنا کر عوام پر تھوپ دینا جہالت کےعلاوہ کچھ نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین یا رب العالمین۔
ناقل : افضل ظہیر جمالی