” دین کا کام ضرور مگر جماعتی تعصبات سے بالاتر ہوکر”
دینِ اسلام کسی مخصوص گروہ، مسلک، قوم یا جماعت کی میراث نہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ مکمل نظامِ حیات ہے جو پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر نازل ہوا۔
فرمانِ الٰہی ہے:
“وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ”(سورۃ الانبیاء: 107)
نبی کریم ﷺ نے دین کی دعوت کسی مخصوص قبیلے یا پارٹی تک محدود نہیں کی بلکہ ہر در پر دستک دی، ہر دل کو پکارا، ہر رنگ، نسل اور قوم کو برابر کا مخاطب بنایا۔
لیکن ہائے افسوس! کہ آج دین کے علمبردار مختلف جماعتوں میں بٹ کر، دین کے نام پر ایک دوسرے کی مخالفت، تنقید اور تحقیر میں مصروف ہو گئے ہیں۔ جماعتیں، ادارے اور مسالک اپنے نظریات اور بانیان سے وابستگی کو اس حد تک لے گئے ہیں کہ اصل دین، اصل دعوت اور اصل مقصد پیچھے رہ گیا ہے۔ آج بعض خطبات، دروس، تقریریں اور تحریریں خالص قرآن و سنت کی بات کرنے کے بجائے اپنے مسلک یا جماعت کے دفاع اور دوسرے کے رد میں صرف ہو رہی ہیں۔
دین کی دعوت، یا جماعت کا دفاع؟
یہ سوال ہر امیر،چیئرمین،صدر،کارکن، طالبِ علم اور داعی کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے کہ:
کیا میں اللہ تعالیٰ کے دین کا کام کر رہا ہوں یا صرف اپنی جماعت کا؟
کیا میری دعوت قرآن و سنت کی ہے یا اپنے بڑوں کے اقوال کی؟
کیا میری تنقید دوسروں کی اصلاح کے لیے ہے یا اپنی جماعت کو خوش کرنے کے لیے؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بارہا فرمایا کہ دین میں تفرقہ نہ ڈالو:
“وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا”(سورۃ الروم: 31-32)
یعنی دین کو ٹکڑوں میں نہ بانٹو، اور نہ گروہ در گروہ ہو جاؤ۔ لیکن ہم نے دین کو جماعتوں، تنظیموں اور گروہوں میں بانٹ دیا، اور اب اپنی اپنی جماعت کو “دین” سمجھ کر اس کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں۔
اخلاصِ نیت اور وسعتِ ظرف کی ضرورت:
اگر ہم واقعی دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلی شرط اخلاص ہے۔ اخلاص یہ تقاضا کرتا ہے کہ:
ہم ہر نیکی، ہر دعوت، ہر وعظ، ہر تبلیغ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کریں۔
ہم حق بات کو ہر جگہ قبول کریں، چاہے وہ ہمارے “مخالف” کی زبان سے کیوں نہ ہو۔ لیکن افسوس کہ آج ہم مخالف کی بات کو قبول کرنا تو بہت دور کی بات ہے سننے کے لئے بھی تیار نہیں۔
ہم اصلاح کے لیے تنقید کریں، مگر عدل کے ساتھ، محبت و الفت کے ساتھ، اور دل آزاری سے بچتے ہوئے۔
نبی کریم ﷺ کا اسوہ یہ تھا کہ آپﷺ منافقین کی بھی کھلم کھلا تذلیل نہیں کرتے تھے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کا حال بھی آپ کو بتا دیا تھا۔ تو پھر ہم اپنے دینی بھائیوں کو صرف جماعتی اختلاف پر کیوں دشمن بنا بیٹھے ہیں؟
امت کے بکھرنے کی بنیادی وجہ:
آج امتِ مسلمہ سیاسی، معاشی اور فکری لحاظ سے شدید زوال کا شکار ہے۔ دشمن ہمیں ایک ایک کر کے مار رہا ہے اور ہم اپنے ہی بھائیوں پر وار کر رہے ہیں اور وہ بھی دین کے نام پر!
اتحاد کی دعوت دینی چاہیے مگر قرآن و سنت کی بنیاد پر۔
اختلافات ہوں تو اخلاق اور علم کی حدود میں رہ کر۔
محبت اور دل سوزی کے ساتھ سمجھانے والا دل، زبان اور قلم پیدا کیا جائے۔
حل کیا ہے؟
1. خالص قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔ ہر جماعت، ہر فرد کو چاہیے کہ پہلے قرآن و حدیث کو بنیاد بنائے، باقی ہر چیز اس کے تابع سمجھے۔
2. دینی کام کرنے والوں کی قدر ہو، خواہ کسی بھی مسلک یا جماعت سے ہوں۔ جو دین سکھا رہا ہے، بھٹکی ہوئی نسلوں کو اللہ سے جوڑ رہا ہے، اس کی نیت پر فتویٰ نہ لگاؤ، اس کی محنت کو تسلیم کرو۔
3. دوسروں کی غلطیوں کو اصلاح کا موقع سمجھو، دشمنی کا بہانہ نہ بناو۔
4. نوجوانوں کو تربیت دو کہ وہ صرف اپنی جماعت کے قصیدے نہ پڑھیں، بلکہ اسلام کی عالمگیر دعوت کے علمبردار بنیں۔
آج اگر ہم نے اپنے دلوں سے جماعتی تعصب نکال کر، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے دین کا کام شروع کر دیا، تو وہ دن دور نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عزت، قوت اور وحدت عطا فرما دے۔ورنہ یہ فرقہ واریت، مسلکی جنگیں اور جماعتی فخر ہمیں مزید پستی میں لے جائیں گی۔
خدارا! جماعتی تعصبات سے بالا ہو کر دین کا کام کرو۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ تم سے جماعت کا نام نہیں، خلوصِ نیت اور اتباعِ رسول ﷺ کا سوال کرے گا۔
میرا تعلق کسی بھی تنظیمی جماعت سے نہیں ہے بلکہ میں ہر جماعت،ہر لیڈر ،ہر امیر،ہر قائد اور ہر مبلغ،داعی اور واعظ کا ادب و احترام کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔
ان شاءاللہ العزیز
طالبِ علم: یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء
یہ بھی پڑھیں:عیدالاضحیٰ اور آج کا مسلمان