سوال (5296)

میں سرکاری نوکری چھوڑنا چاہتا ہوں، میرے والد صاحب اور والدہ ناراض ہو رہے ہیں، لیکن میرا مقصد کاروبار اور لوگوں کی خدمت کا ہے دین کے لیے کچھ کرنے کا ہے علماء اور مشائخ رہنمائی فرمائیں؟

جواب

والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا فرض ہے۔
اور غیر فرض چیزوں پر ان کی اطاعت کو مقدم رکھیں گے۔
اگر والدین کسی فرض عمل کی ادائیگی سے منع کریں ناراضگی دکھائیں یا شرک وکفر کی طرف دعوت دیں تو تب ان کی اطاعت یہاں فرض نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:

وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا۔

اور اگر وہ دونوں تجھ پر زور دیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کا کہنا مت مان اور دنیا میں اچھے طریقے سے ان کے ساتھ رہ۔ سورہ لقمان:(15)

صَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا:

اس کی تفسیر میں شیخ التفسیر حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
ممکن تھا کہ کوئی شخص اس سے یہ سمجھ لیتا کہ والدین کے مشرک ہونے یا شرک پر آمادہ کرنے کی کوشش کی صورت میں ان سے سرے ہی سے قطع تعلق کر لینا چاہیے۔ اس لیے فرمایا کہ جب تک وہ زندہ ہیں، ان معاملات میں جو دین کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے، ان کے ساتھ اچھے طریقے کے ساتھ رہو۔ مثلاً ان کے کھانے پینے، پہننے، رہنے اور علاج وغیرہ کی ضروریات کا خیال رکھو، ان کے ساتھ نرمی اور محبت کے ساتھ بات کرو، ان کے غصے اور تلخی کو برداشت کرتے رہو۔ جب مشرک والدین کے متعلق یہ حکم ہے، تو مومن والدین کا حق کس قدر ہو گا!تفسیر القرآن الکریم، تفسیر سوۃ لقمان:(15)
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

ﻻ ﻃﺎﻋﺔ ﻟﻤﺨﻠﻮﻕ ﻓﻲ ﻣﻌﺼﻴﺔ اﻟﻠﻪ،

الله تعالی کی نافرمانی کے معاملہ میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔
مسند أحمد بن حنبل:(20653) سنده صحيح و( 20654) صحیح، مسند الحارث:(602)
ﻋﻦ ﻋﻠﻲ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻗﺎﻝ: ﻻ ﻃﺎﻋﺔ ﻟﻤﺨﻠﻮﻕ ﻓﻲ ﻣﻌﺼﻴﺔ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ
سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
الله عزوجل کی نافرمانی کے معاملہ میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔
مسند أحمد بن حنبل:(1095) سنده صحيح
اور دیکھیے سنن ترمذی:(1707) ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺟﺎء ﻻ ﻃﺎﻋﺔ ﻟﻤﺨﻠﻮﻕ ﻓﻲ ﻣﻌﺼﻴﺔ اﻟﺨﺎﻟﻖ،
اس کے بعد عرض ہے کہ آپ اپنی ملازمت جاری رکھیں ممکن ہے والدین کی اطاعت کی وجہ سے آپ اپنی سوچ سے بہتر کچھ کر سکیں۔
والدین کا مقام وعظمت بہت بلند ہے چند ایک احادیث کو خلاصۃ بیان کرتے ہیں۔
حدیث مبارک کے مطابق والدین اور قریبی رشتوں میں سے سب سے زیادہ حسن سلوک کی حقدار والدین اور پھر دوسرے قریب کے رشتے دار ہیں۔
سنن أبو داود، باب في بر الوالدين: (5139)،سنن ترمذى، ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺟﺎء ﻓﻲ ﺑﺮ اﻟﻮاﻟﺪﻳﻦ: (1897)،مسند أحمد بن حنبل: (20028) سنده حسن لذاته،
اس کا شاھد صحیح دیکھیے صحیح البخاری:(5971) میں

عن أبی هریرۃ رضی الله عنه ﻣﻦ ﺃﺣﻖ اﻟﻨﺎﺱ ﺑﺤﺴﻦ ﺻﺤﺎﺑﺘﻲ؟ ﻗﺎﻝ: ﺃﻣﻚ۔۔۔

جہاد جیسے عظیم عمل میں صحابی کے عملا شریک ہونے کی اجازت مانگنے کے باوجود رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اسے فرمایا واپس لوٹ جا اور اپنے والدین کے ساتھ نہایت حسن سلوک سے پیش آ۔
صحیح مسلم: 6(2549) ﺑﺎﺏ ﺑﺮ اﻟﻮاﻟﺪﻳﻦ ﻭﺃﻧﻬﻤﺎ ﺃﺣﻖ،
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے تین بار فرمایا الله تعالى تمہیں اپنی ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہیں،بے شک الله تعالى تمہیں تمہارے باپوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہیں۔
سنن ابن ماجه:(3661)،مسند أحمد بن حنبل:(17187) سنده حسن لذاته
والدین کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کہ یہ نفلی نماز پر مقدم ہے ہمارا اشارہ اس روایت کی طرف ہے جس میں جریج رحمه الله تعالى اور ان کی والدہ کا ذکر ہے۔
دیکھیے صحیح البخاری:(2482 ،3436)
والدین کی قدر اور ان سے حسن سلوک سے پیش نہ آنے کا انجام اور نقصان:

عنْ أُبَيِّ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:” مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا، ثُمَّ دَخَلَ النَّارَ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ، فَأَبْعَدَهُ اللهُ وَأَسْحَقَهُ،

سیدنا أبی بن مالک رضی الله عنہ سے روایت کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے والدین کو یا ان دونوں میں سے ایک کو پایا پھر اس (سعادت بھرے موقع کے )بعد بھی ( ان کے ساتھ حسن سلوک نہ کر کے) آگ میں داخل ہوا تو الله سبحانه وتعالى اسے اپنی رحمت سے دور کر دیں اور اسے ہلاک کر دیں۔ مسند أحمد بن حنبل:(19027) واللفظ له،مسند أبي داود الطيالسي:(1418)،مسند ابن أبي شيبة: (590)،الجعديات / مسند على بن الجعد:(955) سنده صحيح
ان چند احادیث صحیحہ کی روشنی میں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے والدین کی قدر کریں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں اور ان کی ناراضگی اور نافرمانی کرنے سے بچیں۔والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

ایک تو دعا کریں، اللہ تعالیٰ دلوں کو مائل کرنے والا ہے، اس کے علاؤہ لوگوں کو داخل کرکے افہام و تفہیم سے ان کو سمجھائیں، آپ بھی ضد نہ کریں، وہ بھی اصرار نہ کریں، افہام وتفہیم سے حل کریں، لیکن اگر وہ ناراض ہو جاتے ہیں تو پھر اگر نوکری میں شرعی قباحت نہیں ہے تو اس کو برقرار رکھیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ