سوال (1558)

میں حافظ قرآن ہوں اور درس نظامی بھی کیا ہوا ہے ، الحمدللہ اور تین سالوں سے جمعہ بھی فی سبیل اللّٰہ پڑھا رہا ہوں ، میں چاہتا ہوں کہ اب کسی مسجد میں امامت بھی شروع کر دوں ، میرا ارادہ امامت اور خطابت کو اپنی روزی کا ذریعہ بنانا نہیں ہے ، بلکہ دین کی خدمت ، اللہ کی رضا اور دنیا و آخرت کی بہتری ہے۔ لیکن میں اب ایک پریشانی میں مبتلا ہوں ، میری والدہ محترمہ مجھے کہتی ہیں جاؤ کہیں کسی مسجد میں اگر کہیں امامت مل رہی ہے تو چلے جاؤ ، لیکن والد صاحب کہتے ہیں میں نہیں چاہتا کہ تم امامت اور خطابت کا معاوضہ لو بلکہ فی سبیل اللّٰہ یہ کام کرو ، میری رہنمائی فرمائیں میں کیا کروں ایسی حالت میں والد کی بات مانوں یا پھر والدہ کی بات مانوں؟

جواب

آپ کی چاہت بھی اچھی ہے ، والدین کی چاہت بھی اچھی ہے ، آپ انہیں قائل کریں کہ میرا مطمع نظر پیسے کا حصول نہیں ہے ، اصل چیز یہ ہے کہ خدمت کا مجھے موقع ملے گا ۔ البتہ دینی امور میں جو مشاہرہ ملتا ہے وہ جائز ہے اس کی ادلہ بھی موجود ہیں۔ اپنے والدین کو سمجھائیں کہ جزوی طور پہ جو مجھے ملے گا میں اس پہ راضی ہوں ، اللہ کی تقسیم پہ راضی ہوں ، باقی معاوضہ لینے کا جواز ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اگر ضرورت نہیں ہے تو لینے کے بعد آپ صدقہ کردیں ، بس بندہ حریص نہ ہو ، اس کی وجہ سے اپنے معاملات کو خراب نہ کرے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل :
شیخ محترم اگر پھر بھی نہ مانیں تو پھر میں ایسے فارغ ہی رہوں تو میرے لیے بہتر ہے ؟ جمعہ پڑھا رہا ہوں وہ پڑھاتا ہوں اور باقی معاملات جیسے والد صاحب کہہ رہے ہیں ان کی بات مانوں ؟
جواب :
کوئی حرج نہیں ہے ، بس اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دی ہے ، آپ اس تحریک سے وابستہ رہیں ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ