دینی مدارس معاشرے کے محافظ
ہر دور میں کفر و الحاد کے حملے دینی مدارس پر ہوئے ہیں، خواہ وہ ظاہری ہوں یا باطنی ہوں، ہر دین دشمن نے مدارس کے خلاف سازشوں میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کی ہے، ان کی تمام تر کوششوں کا یہ مقصد رہا ہے کہ مدارس کو ختم کرکے معاشرے سے دینی علوم کو اٹھایا جائے، تاکہ کفر و الحاد کو عام کیا جائے، شرک و بدعت عام ہو جائے، ہر دور میں کوششیں مختلف رہی ہیں، کسی نے مدارس کو امن کا مخالف کہا ہے، کسی نے مدارس کو معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کا سبب بتایا ہے، طرح طرح کی الزام تراشیاں کی ہیں، تاکہ لوگ مدارس سے اعتماد کھو دیں، اپنوں بچوں کو مدارس سے دور رکھیں، لوگوں کے ذہنوں کو مدارس کے خلاف اکسایا جائے، حالانکہ ان مدارس کی بنیاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ہے، سب سے پہلا مدرسہ اصحاب الصفہ تھا، استاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، شاگرد اصحاب محمد تھے، الحمدللہ یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے، ان مدارس کی وجہ سے آج تک معاشرہ محفوظ ہے، یہی مدارس ہیں، جن کی وجہ سے آسمان سے برکتوں کا نزول ہے، امن و امان قائم ہے، نیکیوں کا فروغ ہے، آج بھی یہ مدارس شرک، بدعت اور الحاد کے خلاف کھڑے ہیں۔ یاد رہے کہ جب دنیا مادیت کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہو، جب فحاشی و بے حیائی کا طوفان بپا ہو، جب دین و ایمان کی بنیادیں متزلزل کی جا رہی ہوں، تو ایسے وقت میں دینی مدارس وہ چراغ ہیں جو اللہ کے دین کی روشنی پھیلاتے ہیں، امت کو ان کے دین، شریعت اور عقیدے سے جوڑے رکھتے ہیں، اور ہر فتنے کے مقابل سینہ سپر ہو کر کھڑے ہوتے ہیں، یہی مدارس ہماری نئی نسل کو الحاد، بے دینی، اور گمراہی سے بچا کر علم، تقویٰ، اخلاص اور دعوت و جہاد کی راہ پر گامزن کرتے ہیں، دینی مدارس اسلام کی بقا، امت کی فلاح اور معاشرے کی اصلاح کا بنیادی ستون ہیں، معاشرے کی تعمیر صرف جدید علوم یا مادی ترقی سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے ایک ایسی بنیاد درکار ہوتی ہے جو دل و دماغ دونوں کو سنوارے، کردار و اخلاق کو نکھارے اور انسان کو اس کے اصل مقصدِ حیات سے روشناس کرائے، اسی مقصدِ عظیم کے لیے دینی مدارس وجود میں آئے، وہ ادارے جہاں تعلیم کے ساتھ دلوں کو ایمان سے روشن کیا جاتا ہے، زبانوں کو قرآن کے حرفِ نور سے آشنا کیا جاتا ہے، اور ذہنوں کو نبوی علم کی روشنی میں ڈھالا جاتا ہے، دینی مدارس اسلام کی روحانی چوکیوں کا کام دیتے ہیں۔ یہاں سے اٹھنے والی صدا صدیوں تک باطل کے ایوانوں کو لرزاں رکھتی ہے۔ ان مدارس نے ہر دور میں دین کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کا جواب علم، حلم اور یقین کے اسلحے سے دیا ہے، یہی مدارس ہیں جنہوں نے تہذیبوں کے تصادم میں امت کی فکری رہنمائی کی، غلامی کے اندھیروں میں حریت کی شمع روشن کی، اور آج بھی جب الحاد، تشکیک، اور اخلاقی انارکی کی یلغار ہے، تو یہی دینی مدارس دین کے قلعے بن کر کھڑے ہیں، دینی مدارس معاشرے کے محافظ ہیں، ذیل میں دینی مدارس کے معاشرتی کردار کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے:
1: دینی تعلیم و تربیت کا مرکز:
دینی مدارس قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کرتے ہیں اور معاشرے میں دینی شعور بیدار کرتے ہیں، یہ ادارے طلباء کو اسلامی عقائد، عبادات، دلوں کی اصلاح، اعمال کی درستی اور عقائد کی مضبوطی کا سر چشمہ ہیں اور اس کے ساتھ اخلاقیات کی تعلیم دیتے ہیں، جس سے ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتا ہے، یہی مدارس قرآن و سنت کی روشنی کو نسل در نسل منتقل کرنے والے ہیں۔
2: اخلاقی اقدار کی ترویج:
جب معاشرے میں جھوٹ، فریب، خود غرضی اور اخلاقی انحطاط عام ہو جائے تو ایسی فضا میں دینی مدارس غنیمت ہوتے ہیں جو کردار سازی اور اخلاقی اقدار کے چراغ کو روشن رکھتے ہیں۔ دینی مدارس ایسے ہی نورانی مراکز ہیں، جہاں علم کے ساتھ اخلاق کی تربیت بھی دی جاتی ہے، مدارس میں طلباء کو اخلاقیات، ایثار، قناعت اور سادگی جیسے اوصاف سکھائے جاتے ہیں، جو معاشرتی بہتری کا باعث بنتے ہیں۔ یہ ادارے افراد کو عدل، صدق، دیانتداری، اور امانت جیسی خصوصیات اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں، یہاں استاد کا کردار محض معلم کا نہیں بلکہ مربی اور رہنما کا ہوتا ہے جو اپنے شاگردوں کے دل و دماغ کو علم کے ساتھ ساتھ اخلاق سے بھی منور کرتا ہے۔
3: سماجی خدمات اور فلاحی کردار:
اسلام نے جہاں عقائد و عبادات کی اصلاح کی ہے، وہیں خدمتِ خلق کو دین کا ایک اہم ستون قرار دیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہمارے سامنے سب سے اعلیٰ مثال ہے، جنہوں نے یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھا، مسکینوں کو کھانا کھلایا اور مظلوموں کی ڈھارس بندھائی، یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس غریبوں کو مفت تعلیم، رہائش، خوراک اور علاج فراہم کرتے ہیں، جو کہ ایک بڑی فلاحی خدمت ہے۔ یہ ادارے یتیموں، مسکینوں، اور ناداروں کی کفالت کرتے ہیں اور معاشرے میں ہمدردی اور خیرخواہی کے جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔
4: معاشرتی رہنمائی اور قیادت:
مدارس کے فارغ التحصیل افراد مساجد، مدارس اور دیگر دینی اداروں میں خدمات انجام دے کر معاشرے کی دینی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ یہ افراد معاشرتی اصلاحات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور عوام کو دینی و اخلاقی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
5: دینی مدارس کا امن کے لیے اہم کردار:
دینی مدارس امن، رواداری، اور بھائی چارے کی تعلیم دیتے ہیں اور معاشرے میں امن و امان کے قیام کے لیے کوشاں ہیں، یہی مدارس ایسے افراد تیار کرتے ہیں جو معاشرے میں امن، عدل، احترامِ انسانیت اور حسنِ سلوک کے علمبردار ہوتے ہیں اور جو اپنے عمل سے دین کا وقار بلند کرتے ہیں۔
6: معاشرتی اصلاح اور تربیت:
مدارس معاشرتی برائیوں کے خاتمے اور اصلاح کے لیے بھی سرگرم عمل ہیں۔ یہ ادارے غیبت، چغلی، گالم گلوچ، تہمت، اور بہتان جیسے اخلاقی برائیوں کی بیخ کنی کے لیے تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہیں۔
تحریر: افضل ظہیر جمالی