بچوں کو مدارس کی بجائے یونیورسٹیز میں بھیجنا چاہیے؟
سوال:
کیا اس دور میں بھی مدرسہ کی ضرورت ہے، اب بے شمار حفاظ اور علماء پیدا ہوچکے ہیں، دینی رہنمائی اب ہر کوئی خود لے سکتا ہے، کیا مدرسہ کے مولویان کو جا کر کوئی کاروبار نہیں کرنا چاہیے اور بچوں کو مدارس کی بجائے یونیورسٹیز میں بھیجنا چاہیے؟ تاکہ مفت میں ویلے بیٹھ کر ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے کی بجائے اس کی بہتری میں کردار ادا کریں؟
جواب
جناب…!!
دینی مدارس تو ہر دور کی ضرورت ہیں اور وہ الحمد للہ اپنی ذمہ داریاں کما حقہ نباہ بھی رہے ہیں اور ادا بھی کر رہے ہیں۔ اور معاشرہ کی دینی ضروریات کے لئے ہمہ وقت کوشاں بھی ہیں اور معاشرہ کی ضرورت کے مطابق علماء خطباء مدرسین واعظین مصنفین مبلغین محقق سکالر ائمہ مساجد اور حفاظ کرام و قراء عظام وغیرہ تیار کر رہے ہیں۔
ہر مذہبی فیلڈ میں ماہر سے ماہر افراد موجود ہیں تو ان مدارس کی بدولت ہیں۔
رہ گئی مدارس کے مقابلے میں یونیورسٹیاں اور کالجز تو ان پاکستانی اور بیرونی یونیورسٹیوں نے کیا نابغے دیئے؟
ملکی یا غیر ملکی یونیورسٹیوں سے گریجویٹ ایم این اے، ایم پی اے حضرات جو اسمبلیوں میں پہنچ کر ملک اور عوام کو نوچ رہے ہیں، عوام پر پہاڑوں کی طرح بڑے بڑے بھاری ٹیکس لگا کر خود کرپشن کے انبار اور اقربا پروری کے سابقہ ریکارڈ توڑ کر نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں، کیا یہ مدارس کی پیداوار وار ہیں یا یونیورسٹیوں کی؟؟
اور اے سی ،ڈی سی ، کمشنرز سی ایس ایس افیسرز بیوروکریٹس کلرک بادشاہ کلیٹرز وغیرہ ہیں تو بغیر بھاری رشوت کے کسی بھی فائل اور درخواست کو آگے نہیں چلاتے اور ایک ایک سائن دستخط کے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں، کیا یہ سب مدارس کے پڑہے ھوئے ہیں؟ یا یونیورسٹیوں کے؟؟
ڈاکٹرز ہیں تو عام طور پر طب جیسے خدمت اور ھمدردی والے پیشے کو بزنس انڈسٹری بنا رکھا ہے!!
میڈیکل لیبارٹریوں کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار کرنے والے ۔۔۔ اپنی لیب پر ٹیسٹ کرانے کے لئے ڈاکٹرز کو کمیشن دینے والے ۔۔ ڈاکٹرز کو بطور کمیشن گاڑیاں بنگلے آفس غیر ملکی سیر و سیاحت یا عمرے کے ٹکٹ و دیگر سہولیات فراہم کر کے اپنی دو نمبر ناقص ادویات فروخت کرنے والی میڈیسن کمپنیاں۔۔ کیا ان کو دینی مدارس کے لوگ چلا رہے ہیں؟ یا یونیورسٹیوں سے فیض یافتہ؟
ہسپتال مافیا کے طریقہ واردات میت کا علاج کر کے لاکھوں کے بل وصول کر کے پھر نعش ورثاء کے حوالے بیماری کے بہانے گردے نکال کر بیچنے والے کیا مدارس کے فارغ التحصیل ہیں یا یونیورسٹیوں سے فیض یافتہ؟
ٹیچرز، پروفیسرز پرائیویٹ ایجوکیشن سسٹم کے کالجز یونیورسٹیاں اور ان کے آونرز اور انوسٹرز حضرات نے تعلیم جو ایک بنیادی ضرورت تھی کالجز اور یونیورسٹیز کو ایک کمرشل ہب بنا کے رکھ دیا ہے۔۔ یہ دینی مدارس کے لوگ ہیں یا یونیورسٹیوں کے؟
بنکار اور سرمایہ دار ہیں تو اکانومی کے نام پر عوام کا خون نچوڑ نچوڑ کر کنگلا کر چکے ہیں ۔ کیا یہ مدارس کی پیداوار ہیں؟؟ یا یونیورسٹیوں کی پیداوار؟
ہر محکمہ میں ڈی جی صاحب ایم جی صاحب باس جی بڑے بڑے گریڈز کے حامل با اختیار افسران اور صاحب لوگوں کے کرتوت کیا آپ سے مخفی ہیں؟ کیا دینی مدارس کے لوگ ہیں یا یونیورسٹیوں کے؟؟
عدلیہ سیشن کورٹس سول کورٹس ھائی کورٹس سپریم کورٹس بینکنگ کورٹس وغیرہ کے ججز حضرات اور ان کی عدالتوں میں مجرموں کو سزاؤں سے بچانے والے وکلاء قانون دان ان میں کتنے لوگ ہیں جو مدارس سے تعلیم یافتہ ہیں؟
کیا یہ سب مدارس کی پیداوار ہیں؟؟ یا یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے تعلیم یافتہ ؟؟
قانون نافذ کرنے والے ادارے ملکی دفاع و سالمیت کے ادارے اسٹیبلشمنٹ وغیرہ ان اداروں میں کتنے لوگ ہیں جو دینی مدارس کے پڑھے ھوئے ہیں؟ یا یونیورسٹیوں کے؟
پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا نام نناد زرد صحافت لفافی میڈیا وغیرہ
بلیک مارکیٹنگ ذخیرہ اندوزی بازاروں میں لوٹ کھسوٹ ۔۔۔ نت نئے جدید طریقوں سے پن کوڈز لیکر ڈیجیٹل فراڈ کے ذریعے غلط طریقہ سے ان کی زندگی بھر کی کمائیاں لوٹنے والے کیا یہ مدرسوں کے پڑھے ہیں؟ یا یونیورسٹیوں کے؟؟
محترم حقیقت تو یہ ہے کہ
اگر کوئی مدرسے کا پڑھا ھوا ان محکموں میں آ بھی جائے تو اسے مولوی مولوی کہہ کر کھڈے لائن لگا دیا جاتا ھے کہ نہ خود کھاتا ہے نہ ہمیں کھانے دیتا ہے روز روز کے تبادلوں سے زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے۔ تو کیا وہ اس مولوی کی زندگی کو اجیرن کرنے والے مدارس کے پڑھے ھوئے ہیں یا یونیورسٹیوں کے؟؟
آپ انصاف کی بات کریں نا انصافی نہ کریں ۔۔ مدارس پر تو تب لب کشائی کریں جب معاشرہ کی طرف سے ملنے والی ذمہ داریاں پوری نہ کر رہے ہوں۔۔۔!؟ اعلی تعلیم فراہم والے یہ عصری ادارے اگر کرپٹ لٹیرے بددیانت ہمدردی و خیر خواہی و انسانیت سے نا آشنا پیدا کر رہے ہیں تو ان کا غصہ مدارس پر نہ نکالیں!!
تحریر: فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن شاہین، مدیر جامعہ اسلامیہ گلستان ٹاون ملتان