سوال

میری ایک قریبی سہیلی سمبڑیال میں “الہدی” کے نام سے ایک دینی عمارت کی تعمیر کا کام کروا رہی ہیں۔ اہلِ علاقہ کے تعاون سے عمارت کھڑی ہوگئی ہے، مگر اب کام رکا ہوا ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ چونکہ آپ کے رابطے میں ایسے لوگ ہیں جو مالی تعاون میں پیش پیش رہتے ہیں، تو ان سے درخواست کریں۔

جب میں نے ان سے بات کی تو ایک خاتون مسلسل اصرار کر رہی ہیں کہ کیا اس تعمیر میں زکوٰۃ کی رقم لگائی جا سکتی ہے؟

میں نے  ایک صاحبِ علم سے دریافت کیا، تو انہوں نے کہا کہ مسجد و مدرسہ کی تعمیر میں زکوٰۃ کی رقم نہیں لگا سکتے۔ ہاں اگر وہاں غریب بچے یا اساتذہ ہوں تو ان کی مدد یا ان کی تعلیم کے لیے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے، مگر تعمیر میں نہیں۔

جب میں نے یہ بات اس خاتون کو بتائی تو اس  نے جواب دیا کہ الہدی کی ہی بعض خواتین کہتی ہیں کہ ہم تو زکوٰۃ کی رقم عمارت کی تعمیر میں لگاتے ہیں۔

اب آپ قرآن و سنت کے مطابق رہنمائی فرمائیں کہ کیا زکوٰۃ کی رقم اس عمارت کی تعمیر میں استعمال کی جا سکتی ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

یہ جو “الہدی” کی عمارت بنائی جا رہی ہے، اس کے بارے میں سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ:

کیا یہ عمارت رفاہِ عامہ کے کسی دینی کام کے لیے بن رہی ہے یا یہ ایک پرائیویٹ اسکول یا ادارہ ہے جو بطور بزنس قائم کیا جا رہا ہے؟

اگر یہ بزنس مقصد کے لیے بنائی جا رہی ہے، جیسا کہ بعض پرائیویٹ اسکول اور تعلیمی ادارے بزنس اور آمدن کے لیے قائم کیے جاتے ہیں، تو ایسی صورت میں اس پر زکوٰۃ کی رقم کا استعمال درست نہیں۔

لیکن اگر یہ عمارت رفاہِ عامہ کا کام ہے، جس میں قرآن و حدیث کی مفت تعلیم دی جاتی ہے، فقراء اور مستحق طلبہ کی دینی تعلیم کا بندوبست کیا گیا ہے، تو پھر ایسی صورت میں یہ کام مصارف زکوۃ میں سے “فقراء ومساکین” اور “فی سبیل اللہ” کے تحت آئے گا، اور اس میں زکوٰۃ کی رقم لگانا درست ہوگا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

“اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَالۡمَسٰكِيۡنِ…وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ”. [التوبہ: 60]

’’صدقات (زکوۃ) تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے…. اور اللہ کے راستے میں (خرچ کرنے کے لیے ہیں)‘‘۔

اس آیت میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے ایک “فی سبیل اللہ” بھی ہے، یعنی اللہ کے راستے میں خرچ کرنا۔

مفسرین اور علمائے کرام نے “فی سبیل اللہ” کے مفہوم میں جہاد، اور رفاہی امور جیسے مدارس، دینی تعلیم وغیرہ کو بھی شامل کیا ہے۔

لہٰذا اگر یہ عمارت اور ادارہ بزنس کے مقصد لیے بنایا جا رہا ہے، تو اس پر زکوٰۃ نہیں لگ سکتی، لیکن اگر بزنس مقصد کے بغیر، صرف رفاہِ عامہ کے لیے بنایا جارہا ہے، اور اس میں مستحق و غریب طلباء کو دین کی مفت تعلیم دی جاتی ہے، تو ان شاء اللہ اس میں زکوٰۃ کی رقم لگ سکتی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ