ایک عرب عالم دین بدر بن علی العتیبی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
‏✦ كان الإمام الشافعي ما يمسك شيئاً من المال لسماحته.
‏✦ وذات مرة أراد الخروج إلى مكة ومعه مال، فقال بعض الناس: ينبغي أن تشتري بهذا المال ضيعة تكون لولدك من بعدك، فخرج ثم قدم، فسألوه ماذا صنع بالمال؟
‏فقال: ما وجدت بمكة ضيعة يمكنني أن أشتريها، ولكن قد بنيت بمكة بيتاً يكون لأصحابنا ينزلون فيه إذا حجوا.
‏”الحلية” (٩/ ١٢٧)
‏✦ رحم الله الإمام الشافعي، لم ينسَ طلابه.
‏✦ واليوم:
‏- أين الشيخ المضياف؟
‏- أين الشيخ الذي يُنشئ سكناً للطلاب، ودار ضيافة لزائريه؟!
‏✦ كان إلى عهد قريب -في أواخر القرن الماضي- في مدينة الرياض سكنٌ للطلاب الوافدين للأخذ على علماء الرياض وأخصهم سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم.
‏✦ ولما كانت الدعوة والإرشاد تحت إدارة سماحة شيخنا الشيخ عبدالعزيز بن باز أعد سكناً للدعاة إذا قدموا من بلاد بعيدة يقيمون فيه.
‏✦ ولشيخنا محمد بن عثيمين الراية العليا في إنشاء سكن لطلابه بجوار مسجده، ورتبه أحسن ترتيب، وتكفل بطعامهم وشرابهم، ومكتبة يستفيد منها الطلاب.
‏✦ وللشيخ مقبل الوادعي كان مضيافاً للطلاب الذين يتوافدون إليه من كل بلاد العالم.
‏والتاجر الرابح هو الذي يدعم العالم بمثل هذه الدور إعانة للطلاب، وهذا من عظيم الفضل العائد بكبير الأجر، فيُخدم الإسلام بالنفس والمال.

اردو ترجمانی

دینی طلبہ وعلماء پر خرچ کرنا زیادہ نفع بخش انویسٹمنٹ ہے!
امام شافعی رحمہ اللہ بڑے فراخ دل اور فیاض شخص تھے، اسی وجہ سے ان کے پاس مال جمع نہیں رہتا تھا۔
ایک مرتبہ امام شافعی رحمہ اللہ نے مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ کیا اور اس وقت ان کے پاس کچھ رقم بھی تھی۔
کسی نے کہا: اس رقم کا بہتر مصرف یہ ہے کہ آپ بچوں کے لیے کوئی پلاٹ وغیرہ خرید کر رکھ دیں!
امام شافعی مکہ تشریف لے گئے، اور جب واپس آئے تو ان سے پوچھا گیا: پھر آپ نے اس رقم کا کیا کیا ہے؟
فرمایا: مکہ جا کر مجھے کوئی ایسی زمین تو نہیں ملی جو خرید کر رکھ چھوڑوں، البتہ ان پیسوں سے مکہ میں میں نے ایک گھر بنوا کر وقف کر دیا ہے کہ جب ہمارے شاگرد حج پر جایا کریں گے تو وہاں رہائش رکھا کریں گے۔ (حلية الأولياء: 127/9)
امام شافعی پر اللہ رحمت کی برکھا برسائے۔۔۔انھیں اپنی اولاد سے بڑھ کر اپنے شاگردوں کا خیال رہا اور ان کی سہولت کی خاطر اپنا مال خرچ کر کے ان کی جائے قیام کا انتظام کر آئے!
کیا آج بھی ہمارے یہاں ایسے فراخ دل اور صاحبِ ثروت افراد نظر آتے ہیں جو دینی طلبہ کے قیام وطعام کے متعلق اس قدر فکر مندی سے سوچیں اور بڑے شہروں اور اکابر علماء کے قرب وجوار میں ان کے رہن سہن کا ایسا عمدہ انتظام کریں اور اچھے ہاسٹلز بنا کر وقف کر دیں جہاں طلبہ علم قیام وطعام کی الجھن سے بے فکر ہو کر اطمینان سے رہیں اور اساتذہ سے علم شرعی حاصل کیا کریں؟!
البتہ ایسی مثالیں سعودی عرب کے اہل علم کے ہاں ضرور ملتی ہیں کہ وہ بڑے شہروں میں دینی طلبہ کی رہائش اور عارضی قیام کے لیے ہاسٹل بنوا کر وقف کر دیا کرتے تھے، تاکہ دوسرے شہروں سے آنے والے طلبہ اور مہمان وہاں رہیں اور بہ سہولت علماء سے ملیں اور استفادہ کیا کریں!
سعودی عرب کے پہلے مفتی اعظم شیخ محمد بن ابراہیم اور ان کے شاگرد علامہ ابن باز نے ریاض شہر میں ایسے کئی ہاسٹلز بنوا کر طلبہ علم کے لیے وقف کیے ہوئے تھے جہاں رہائش کا اعلی انتظام کیا جاتا تھا۔
شیخ عثیمین رحمہ اللہ نے اپنے شہر قصیم میں اپنی مسجد کے قریب ہی طلبہ کے لیے بہت اچھا ہاسٹل تیار کروایا تھا جو کئی سہولیات سے آراستہ تھا۔ وہاں انھوں نے ایک بڑی لائبریری بھی بنوائی ہوئی تھی۔ اس ہاسٹل میں اندرون وبیرون ملک سے طلبہ آ کر قیام پذیر ہوتے اور ان سے پڑھا کرتے تھے!
ایسے ہی یمن میں علامہ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ نے بیرون علاقوں اور ممالک سے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹل تعمیر کروایا ہوا تھا جہاں قیام وطعام کی سہولت میسر تھی۔
آج بھی ہمارے شہروں میں اکابر اہل علم کے قرب وجوار میں طلبہ علم کے لیے اگر رہن سہن کے ایسے عمدہ انتظامات میسر ہوں تو یقینا ان علماء سے طلبہ بہتر طور پر استفادہ کیا کریں اور جتنے دن چاہیں وہاں رہ کر ان کی لقاء وسماع سے مستفید ہوں۔
یقینا ایسا دولت مند جو اپنا مال طلبہ وعلماء کے لیے ان کاموں اور سہولیات پر خرچ کرتا ہے اپنے لیے بہت بڑا صدقہ جاریہ بنا لیتا ہے کہ یہ طلبہ وعلماء جب تک علم سیکھنے اور سکھانے میں مصروف رہیں گے، پھر آگے ان کے علم سے مستفید ہونے والے جب تک علم کی اشاعت میں مگن ہوں گے اور اس پر عمل کرتے رہیں گے ایسا انتظام کرنے والے کو اس کا اجر ملتا رہے گا جو کبھی نہیں ختم ہو گا۔
اسی سے واضح ہوتا ہے کہ بلڈنگز اور عمارات پر بے تحاشا خرچ کرنے کے بجائے دین کے دعاة اور علماء وطلبہ پر خرچ کرنا زیادہ نفع نخش انویسٹمنٹ ہے!
آپ کا ایک دینی طالب علم کو سواری لے کر دینا، اسے کورس کی کتابیں ہدیہ کرنا، اس کے لباس اور ضروریات کا خیال رکھنا یقینا صدقہ جاریہ کی اعلی ترین صورت ہے کہ آپ ایک ایسا مجاہد تیار کرنے میں معاونت کر رہے ہیں جو خدمت دین اور دفاع سنت کے لیے اپنی زندگی وقف کیے ہوئے ہے!

حافظ شاہد رفیق