سوال (4874)

دیہات میں عید کی نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

دیہات میں عید کی نماز جائز ہے۔ احناف یہ شرط لگاتے ہیں کہ عید کی نماز کے لیے شہر یا بڑا قصبہ ہونا ضروری ہے۔لیکن اس طرح کی شرط کا کتاب و سنت میں کوئی ثبوت نہیں۔
مالکیہ، شوافع، حنابلہ ان سب کے نزدیک عید کی نماز دیہات میں پڑھنا جائز ہے کیونکہ یہ اجتماعی عبادت ہے اور حضور ﷺ نے عامۃ المسلمین کو اس میں شامل فرمایا، خواہ شہر ہو یا دیہات۔
جہاں مسلمان جمع ہوں چاہے گاؤں ہی کیوں نہ ہو وہاں جمعہ وغیرہ ادا کیا جائے گا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں اسلام میں مسجد نبوی میں جمعہ قائم کئے جانے کے بعد پہلا جمعہ قریہ جواثاء میں قائم کیا گیا، جو علاقہ بحرین کا ایک گاؤں ہے، عثمان کہتے ہیں: وہ قبیلہ عبدالقیس کا ایک گاؤں ہے۔ [سنن ابی داؤد حدیث نمبر: 1068]

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ عبد الباسط شیخ حفظہ اللہ

جہاں دیگر عبادات دیہاتوں میں ادا ہو سکتی ہیں وہیں پر عید جیسی عبادت بھی ادا کی جا سکتی ہے، فرائض واحکام صرف شہری لوگوں پر فرض نہیں ہؤے ہیں، جتنے بھی فرائض واحکام يآيها الذين آمنو کے ساتھ بیان ہؤے ہیں وہ سب کو شامل ہیں، کیا دیہات میں ایمان والے موجود نہیں ہیں؟ کیا دیہات والوں کے لئے الگ سے احکام نازل ہونے ہیں؟
کیا اس تخصیص کی کوئی صحیح وصریح دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ دیہات میں جہاں جامع مسجد نہیں فلاں اور فلاں ہنر وجوب نہیں وہاں یہ اور یہ فرائض ادا نہیں ہوں گے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فضولیات لکھنے والے بھی عصر حاضر میں ہر جگہ جمعہ،عیدین جیسی عبادات ادا کر رہے ہیں
تو جہاں کہیں اہل ایمان موجود ہیں چاہے وہ ایک ہی یا دو ہی کیوں نہیں ہوں وہ بھی یہ فرائض ادا کریں گے۔
والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ